توہین وعذاب کے ساتھ سولی دے دے پھر جب ان لوگوں نے گھر گھیرا اور اپنے گمان میں سمجھ چکے کہ ہم نے پکڑ لیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اس گھر کے موکھلے سے آسمان کو اٹھالیا اور اس کی شباہت ایک شخص پر ڈال دی جو عیسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس مکان میں تھا پھر جب یہ لوگ داخل ہوئے تو انہوں نے اندھیری رات میں اس کو عیسیٰ تصور کیا اور پکڑ کر اہانت کے ساتھ سولی دے دی اور یہی ان کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی خفیہ تدبیر تھی کہ اپنے نبی کو نجات دے دی اور ان کافروں کو ان کی گمراہی میں بھٹکتا چھوڑ دیا۔ (تفسیر مواہب الرحمن ج۳ ص۲۰۱)
’’تفسیر معالم التنزیل‘‘ میں ہے: ’’قال الکلبی عن ابی صالح عن ابن عباس فاجتمعت کلمۃ الیہود علی قتل عیسیٰ علیہ السلام وسارو الیہ لیقتلوہ فبعث اﷲ جبریل فادخلہ فی خوخۃ فی سقفہا روزنۃ فرفعہ الیٰ السماء من تلک الروزنۃ‘‘ {کلبی نے ابی صالح سے اور اس نے ابن عباسؓ سے روایت کی ہے۔ یہود کی ایک جماعت نے عیسیٰ کے قتل پر اتفاق کیا اور اس کو قتل کرنے کے لئے اس کی طرف گئے پس اللہ تعالیٰ نے جبریل کو بھیجا پس اس نے اس کو مکان میں داخل کیا، اس کی چھت میں سوراخ تھا۔ اس سوراخ کی راہ اس کو آسمان پر اٹھا لیا۔ } (معالم ص۱۶۲، سطر۵)
مولوی محمد علی صاحب کو مفسرین کی اس تفسیر پر تین اعتراض ہیں:
اوّل… یہ کہ ایک شخص کو یوں دشمنوں کے تصرف سے نکال لینا کہ اسے آسمان پر اٹھایا جائے۔ یہ کوئی باریک مخفی تدبیر نہ ہوئی۔
دوسرا… یہ کہ مکر تو اس مخفی تدبیر کو کہا جاتا ہے جو جہالت نقص وفتور سے خالی ہو جب ایک حواری ماراگیا اور اسی صلیب کی موت سے مارا گیا تو یہ تدبیر تو سخت ناقص ہے۔ مسیح تو لعنتی موت سے بچے لیکن ان کی جگہ حواری جو انصار اﷲ میں سے تھا۔ اسی لعنتی موت میں گرفتار ہوا۔
تیسرا… اور سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہودیوں کی غرض تو پوری ہوگئی کہ مسیح کے کاروبار اور تبلیغ کا خاتمہ ہوگیا اور نبی اسرائیل اس کی ہدایت سے محروم رہ گئے۔ پھر یہ کیسی ناقص تدبیر ہوئی۔
(تفسیر بیان القرآن ج۱ ص۳۳۰)
مولوی صاحب کے یہ اعتراض یا تو اتباع بغیر البصیرت پر مبنی ہیں یا عدم تدبیر کا نتیجہ۔ بہر کیف تار عنکبوت سے زیادہ وقعت نہیں رکھتے۔ اگرچہ یہ سوال قابل التفات نہیں۔ تاہم ان کے جواب نمبر وار لکھے جارہے ہیں۔
پہلے… اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ایک شخص کو یوں دشمنوں کو تصرف سے نکال لینا یہ کہ اسے