آیت ہذا سے مابعد کی آیت میں اللہ تعالیٰ مکر یہود بیان فرماتا ہے جس کے معنے مرزاقادیانی کو خلل دماغ اوربے علمی کی وجہ سے منشاء قرآن شریف کے مطابق سمجھ میں نہیں آئے۔ اس بحث کو ہم دوسری جگہ مکر یہود میں دکھلاتے ہیں۔
غرض پنجم۔مکر یہود کے بیان میں
غرض ہذا میں تین اموربحث طلب ہیں ۔جب تک ان کا علم نہ ہو قرآن شریف کامطلب حل نہیں ہو سکتا۔ وہ امر یہ ہیں۔
امر اوّل… زمانہ نزول قرآن میں لوگوں کے اعتقاد عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کیا تھے۔
امر دوم… قرآن شریف میں قصہ عیسیٰ علیہ السلام کیوں آیا۔
امر سوم… ذکر مکر یہود سورئہ آل عمران میں کیو ں آیا۔
امر اوّل… زمانہ نزول قرآن شریف میں لوگوں کے تین فریق تھے۔ بت پرست، مویہود ، عیسائی۔پھر بت پرست مختلف اعتقاد کے تھے۔ جیسا کہ ہم مقدمہ میں ذکر کر چکے ہیں کہ بت پرست عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کچھ بحث نہ کرتے تھے۔ دوم موسائی ان کے بھی مختلف فریق تھے۔ بعض عزیر علیہ السلام کو خدا کا بیٹاجانتے تھے۔ بعض درویشو ں کو خدا بنا بیٹھے تھے۔ بعض اپنے آپ کو خدا کے دوست یا بیٹے سمجھتے تھے۔ الغرض یہود کے بے تعداد فریق تھے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں آیا ہے:’’ان ھذ القرآن یقص علی بنی اسرائیل اکثرالذی ھم فیہ یختلفون (النمل :۷۶)‘‘{بے شک یہ قرآن بیان فرماتا ہے اوپر بنی اسرائیل کے اکثر اس چیز کا کہ وہ بیچ اس کے اختلاف کرتے ہیں۔}اورعیسیٰ علیہ السلام کی نسبت تہمت فطرت ناجائز وبدکاری لگاتے تھے۔ جس کو ہم غرض سوم تہمت یہود میں بیان کر چکے ہیں۔ اوربعض مقتول اوربعض مصلوب ہوا بھی یقین کرتے تھے۔ سوم عیسائی ان کے بھی بہت فریق تھے۔ ایک وہ جو عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا جانتے تھے۔ دوسرے وہ جو عیسیٰ علیہ السلام کو خدا ہی مانتے تھے۔تیسرے وہ جوتثلیث کے قائل تھے۔ چوتھے وہ جو عیسیٰ علیہ السلام کو یوسف بن یعقوب کا بیٹا سمجھتے تھے۔ پانچویں وہ جو مریم علیہا السلام کا باپ ہیلی سمجھتے تھے۔ چھٹے وہ جو مریم علیہا السلام کا باپ عمران سمجھتے تھے۔ لیکن قرآن مجید عمران ہی کو ثابت کرتا ہے۔پس ناظرین کو دو امر ثابت ہوگئے ہوں گے۔ اول یہ کہ ہر سہ فریق مشرک، یہود، نصاریٰ توحید پر کوئی بھی ثابت قدم نہ تھا۔ دوم اصل واقعہ عیسیٰ علیہ السلام میں کئی طرح کے اختلافات کئے ہوئے تھے۔ جن کی تردید میں اللہ تعالیٰ نے واقعہ عیسیٰ علیہ السلام کی