جس کو علم کنیت بھی کہتے ہیں۔ پس جب واقعہ عیسیٰ علیہ السلام میں کہیں بھی یوسف کے نام پر عیسیٰ علیہ السلام نہیں پکارا گیا تو بیٹا کیونکر ہو سکتا ہے۔
وجہ دوم… قرآن شریف سے ثابت ہے کہ مریم علیہ السلام کو پروردگار نے بذریعہ فرشتہ خبر دی کہ تم کو لڑکا پیدا ہوگا ۔ میرے حکم سے خطاب اس کا مسیح ہے۔ علم اس کا عیسیٰ علیہ السلام، کنیت اس کی ابن مریم ہوگی۔ دیکھو یہی مضمون آیت ہذا سے نکلتا ہے:’’اذقالت الملئکتہ یامریم ان اﷲ یبشرک بکلمۃ منہ اسم المسیح عیسیٰ ابن مریم (آل عمران:۴۵)‘‘پس آیت ہذا سے تین امر ثابت ہوئے۔
امر اول… مریم علیہا السلام کو پہلے ہی اطلاع دے دی گئی۔
امر دوم… عیسیٰ علیہ السلام خدا کے حکم پر پیدا ہوئے ہیںیعنی بن باپ ۔
امر سوم… عیسیٰ علیہ السلام کا خطاب مسیح اورعلم عیسیٰ اورکنیت ابن مریم ہے ۔ یہ تینوں اسماء قبل از تولد خدا کی طرف سے ہیں۔ پس یوسف کا بیٹا کیونکر ہوسکتا ہے؟
وجہ سوم… آنحضرتﷺ کے زمانہ میں عیسیٰ علیہ السلام کے بارہ میں یہودیوں نے سوال کیاتھا کہ عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کیونکر پیدا ہوسکتا ہے۔جیسا کہ آیت ہذا خدا نے ان کے اعتراض کو رد کیا:’’ب‘‘اگر یہ اعتراض کیا جاوے کہ آدم علیہ السلام بغیر والدہ پیدا ہوا ہے تو اس کے جواب میں ہم کہتے ہیں کہ عیسیٰ کی نسبت بحث والد کی طرف سے تھی نہ والدہ کی طرف سے۔اس اعتبار سے ’’ان مثل عیسیٰ کمثل ادم‘‘ مخالفین کے لئے کافی جواب ہے۔نیز سید مرحوم نے آدم علیہ السلام کا منی انسان نطفی پیدائش کا لیا ہے مگر یہ صحیح نہیں کیونکہ جہاں پروردگار عام انسان کوندا کرتا ہے وہاں بنی آدم یا انسان کے لفظ سے پکارتا ہے دیکھو ثبوت اس کا غرض پنجم مگر یہود میں مفصل بیان ہم نے کیاہے۔
وجہ چہارم… سید مرحوم نے اپنے دعوے کے ثبوت میں لکھا ہے کہ انجیل متیٰ ولوقانسب نامہ عیسیٰ علیہ السلام کا یوسف ابن یعقوب کے ساتھ ملتا ہے۔مگر اس میں حضرت سید مرحوم نے بڑی غلطی کی اگر یہ نسب نامہ صحیح ہوتا تو زمانہ حضرتﷺ میں جھگڑا کیوں کرتا۔ غلطی دیگر اگر یہ نسب نامہ بالفرض مانا بھی جاوے تو وہ اختلاف جو کہ بعض یہود عیسیٰ علیہ السلام کو ناجائز فطرتی سمجھتے ہیں۔معاذ اﷲ کیوں نہ مانا جاوے۔الغرض یہ اعتقاد قرآن شریف کے رو سے صحیح نہیں۔
وجہ پنجم… سید مرحوم نے یہ بھی اعتراض کیا ہے کہ عیسیٰ کے بن باپ پیدا ہونے میں کیاحکمت