مرزا قادیانی تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’اس کی قدر توں کے محدود ہوجانے سے وہ خود بھی محدود ہوجائے گا اور پھر یہ کہنا پڑے گا کہ جو کچھ خدائے تعالیٰ کی حقیقت او ر کہنا ہے۔ ہم نے سب معلوم کرلی ہے۔ اور اس کے گہرائو تک ہم پہنچ گئے ہیں اور اس کلمہ میں جس قدر کفر اور بے ادبی اور بے ایمانی بھری ہوئی ہے۔ وہ ظاہر ہے۔ حاجت بیان نہیں۔ سو ایک محدود زمانہ کے محدود در محدود تجارب کو پورا پورا قانون قدرت خیال کرلینا اور اس پر غیر متناہی سلسلہ قدرت کو ختم کردینا اور آئندہ کے نئے اسرار کھلنے سے نا امید ہوجانا۔‘‘ ان پست نظروں کا نتیجہ ہے جنہوں نے خدائے ذو الجلال کو جیسا کہ چاہے شناخت نہیں کیا۔‘‘ میں دنیا کے ہر فردواحد سے جس کے ہاتھ میں یہ کتاب ہو دریافت کرتا ہوں کہ کیا مرزا قادیانی نے مضمون زیر بحث میں قانون قدرت کو محدود زمانہ کے محدو د در محدو د تجارب پر محمول نہیں کیا اور ۱۳،۱۴،۱۵ کو چاندگہن اور ۲۷، ۲۸، ۲۹ کو سورج گہن کے لئے مخصوص اور محدود نہیں کیا اور کیا وہ اس کے گہرائی تک نہیں پہنچے کہ ان ایام مقررہ کے خلاف چاندگہن اور سورج گرہن ہونہیں سکتا اور اگر ہو تو وہ قانون قدرت کے برخلاف ہے اور حدیث کا یہ منشاء ہرگز نہیں کہ وہ قانون قدرت کے برخلاف ہوگا اور اس گہن سے نظام عالم ٹوٹ جائے گا۔ اس جملہ سے کیا جناب مرزا قادیانی نے سلسلہ قانون قدرت کو ختم کرکے آئندہ اسرار کے دروازہ کھلنے کو اپنے اوپر بند نہیں کیا؟
ضرور انہوں نے خدا کی معرفت کا دروازہ اپنے اوپر بند کرلیا اور گہن کے ان ایام کو ذکر کے ان تاریخوں میں قانون قدرت کو محدود سمجھا اور محدود سمجھانے کی مختلف رسالے میں مختلف طرز سے تحریریں لکھیں جب یہ ثابت ہوگیا تو ساتھ ہی ساتھ مرزا قادیانی ہی کے تحریر سے یہ بھی روشن ہوگیا کہ مرزا قادیانی کے مذکورہ بالا تحریر کفر بے ادبی بے ایمانی بھری ہوئی ہے۔ مرزا قادیانی نے خالق ذو الجلال کو جیسا کہ چاہئے نہیں پہنچانا اور واقعی مرزا قادیانی نے بہت ہی سچ فرمایا کہ’’ جہالت کی زندگی سے موت بہتر ہے۔‘‘
تامرد سخن نگفتہ باشد
عیب وہنرش نہفتہ باشد
فارسی کا مشہور قول ہے اور آواز سے بھی حیوان اور انسان اور پھر حیوان کی جنسیت کاپتہ چلتا ہے۔ گدھے کی آواز تو اور بھی جانوروں کی آواز میں سے بڑی آواز ہے۔ ان انکرالا صوات لصوت الحمیر۔ ارشاد خداوندی ہے۔ ناظرین خود فیصلہ کرلیں کہ گدھا کون تھا انسان کون ہے؟