محاورہ پایا جاتاہے کہ قمر کا اطلاق مہینہ بھرکے کل راتوں کے چاند پر ہوتا ہے اور آدھے کی جگہ نصف بولتے ہیں اور بیچ کو وسط بولاکرتے ہیں اگرچہ یہ قصاید وغیرہ عربی علم ادب کی مسلم کتابیں ہیں پھر بھی فانی مخلوق کی زبان اور ان کی تصنیف بالآخر فنا کا مرتبہ رکھتی ہے اس لئے میں اس محاورہ کے ثبوت میں زندہ محاورہ اور زندہ شاہد یعنی قرآن مجید پیش کرتا ہوں۔قادیانی جماعت میں علامہ جناب حکیم نورالدین صاحب ہیں اوروہ علمی فضائل میں مشہورہیں وہ بھی مرزاقادیانی کے محاورہ کو قرآن مجید سے ثابت کردیں۔ قمر کا اطلاق محاورہ عرب میں اس کے پورے دورہ پر بھی ہوتا ہے اﷲتعالی ارشاد فرماتاہے ۔ والقمر قدرنا ہ منازل حتی عادکالعرجون القدیم ۔میں نے قمر کے منازل کو انداز کررکھا ہے یہاں تک کہ وہ لوٹ کر اپنی اگلی حالت پر آجاتا ہے۔ بیچ کی جگہ محاورہ عرب میں وسط بولتے ہیں وکذالک جعلنا کم امۃ وسطاً۔اے امت محمدیہ ﷺمیں نے تم کو درمیانی امت گردانی۔ نصف محاورہ عرب میںہر گز وسط اور درمیان پر نہیں بولا جاتا بلکہ آدھے کی جگہ بولتے ہیں۔ ملاحظہ ہو یاایھا المزمل قم الیل الا قلیلا نصفہ اونقص منہ قلیلا اوز دعلیہ۔
اے کملی اوڑھنے والے (مراد محبوب خدا حضرت رسول مقبول ﷺ)تو رات میں کھڑا ہو ا کر مگر تھوڑا (یعنی اعتدال کو مدنظر رکھ کر)آدھی رات یا کم کر اس سے یاکچھ زیادہ ۔بنا برتحقیق و تحریر مرزا صاحب اگر قمر کا اطلاق محاورہ عرب میں پورے ماہ کے دورہ پر نہیں ہوتا تو ارشاد خداوندی یوں ہونا چاہیے تھا۔والھلال و القمر والبدر والحاق قدر ناہ منازل الخ حالانکہ آیت مذکورہ میں صرف مطلق قمر ہے اور ایسی ہی اگر درمیان کی جگہ محاورہ عرب نصف بولتے تو ارشاد خداوندی یہاں ہوتا وکذالک جعلنا کم امۃ نصفاً۔مگر قرآن و سطًا بتارہاہے۔جس سے معلوم ہوا کہ وسط کی جگہ نصف بولنا محاورہ عرب میں ناجائز کیا بالکل ہی غلط ہے۔ اور پھر اگر نصف کے معنی وسط کے صحیح ہوتے اور آدھے کی جگہ محاورہ عرب میں وسط بولا جاتا تو طرزبیان قرآن مجید یوں ہوتا۔
یاایھا المزمل قم اللیل الا قلیلا وسطہ اونقص منہ قلیلا اوزد علیہ۔اس محاورہ سے بھی قرآن ساکت ہے اور نصف کی جگہ وسط بولنا قرآن کے زندہ محاورہ کے بالکل ہی خلاف ہے۔ بر تقدیر اول مرزا صاحب کی تحریر سے قرآن مجید پر یہ اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ تقدیر منازل محض قمر سے نہیں ہوتا بلکہ ہلال بدر محاق ان تینوں کے ساتھ قرآن نے ایسا جملہ