میں بروایت سعدؓ مروی ہے: ’’سئل النّبیﷺ ای الناس اشد بلائً قال الانبیاء ثم الامثل فالامثل یبتلی الرجل علیٰ حسب دینہ فان کان فی دینہ صلبا اشتد بلائہ وان کان فی دینہ رقۃ ہون علیہ فمازال کذالک حتی یمشے علیٰ الارض مالہ ذنب رواہ الترمذی وصححہ وابن ماجۃ والدارمی‘‘
شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے شرح مشکوٰۃ میں امثل کی تشریح کے متعلق تحقیق لغوی کو بیان کیا ہے۔ جو درج ذیل ہے: ’’وما وقع فی عبارۃ بعض الشارحین ان الا مثل یعبربہ عن الاشبہ بالفضل والاقرب الی الخیر واماثل القوم کنایۃ عن خیارہم یشعربان الا فضل من الامثل من جہۃ اعتبار المماثلت‘‘ یعنی جو کسی بزرگ کا فضیلت میں مماثل ہو اور اس جہت سے اسے خدا نے مزیت بخشی ہو یا جس طریق اور مذہب کو حق کے ساتھ مماثلت ہو اسے امثل کہتے ہیں۔ قرآن اور حدیث اور لغت اور دیوان عرب اس بات کے مصدق ہیں: ’’قال اﷲ تعالیٰ اذ یقول امثلہم طریقۃ ان لبثتم الا یوم وقال ان ہذا لساحران یریدان ان یخرجاکم من ارضکم بسحرہما ویذہبا بطریقتکم المثلیٰ عبدالرحمن بن قاری کا قول ہے خرجت لیلۃ مع عمر بن الخطاب انی المسجد فااذا الناس اوزاع متفرقون یصلی الرجل لنفسہ ویصلی الرجل فیصلی بصلوٰتہ الرجل ویصلی الرجل فیصلے بصلوٰتہ الرہط فقال عمر لو جمعت ہٰئولاء علیٰ قاری واحد لکان امثل (مشکوٰۃ)‘‘ اور امراء لقیس سید الشعراء نے کہا ہے۔
الا یاایہا اللیل الطویل الا انجل
بصبح وما الاصباح منک بامثل
اس لحاظ سے حدیث کے معنی اس طرح ہوں گے کہ نبیوں پر تمام خلق اﷲ سے زیادہ آزمائش ڈالی جاتی ہے۔ پھر جو بلحاظ مماثلت انبیاء ایک دوسرے سے فضیلت رکھتے ہیں۔ علی حسب الدرجات ابتلاء میں واقع ہوتے ہیں جتنا کوئی دین میں مضبوط ہوتا ہے۔ اسی قدر آزمائش اس کی زیادہ ہوتی ہے اور جتنا دین میں کمزور ہو اتنا ہی ابتلاء میں کم رہتا ہے۔ اسی حالت میں ہر دم رہتا ہوا گناہ سے پاک صاف ہوکر زمین پر چلتا ہے۔ ترمذی ابن ماجہ دارمی نے اس روایت کو بیان