تبعنی فانہ منی ومن عصانی فانک غفور الرحیم ومثل عیسیٰ قال ان تعذبہم فانہم عبادک وان تغفرلہم فانک انت العزیز الحکیم ومثلک یا عمر مثل نوح قال رب لا تذر علی الارض من الکافرین دیارا ومثلک مثل موسیٰ قال ربنا اطمس علیٰ اموالہم واشد دعلیٰ قلوبہم فلا یؤمنوا حتی یرو العذاب العلیم ثم قال رسول اﷲﷺ الیوم انتم عالۃ فلا یفنتن احد منہم الا بفداء وبضرب عنقہ ثم ساق البغوی فی المعالم‘‘
بدر کے قیدیوں کے متعلق آنحضرتﷺ نے مشورہ طلب کیا تو ابو بکرؓ نے کہا کہ یہ لوگ آپ کی قوم اور اہل میں سے ہیں انہیں زندہ چھوڑنا چاہئے اور مہلت دے کر اس قابل کرنا چاہئے کہ وہ توبہ کریں۔ شاید خدا ان کی توبہ منظور کرے اور ان سے معاوضتہً فدیہ وصول کرلیا جائے تاکہ ہمارا فنڈ بمقابلہ کفار مضبوط ہوجائے اور حضرت عمرؓ نے یہ تجویز پیش کی کہ یہ لوگ آپ کے دشمن اور مکذب ہیں انہوں نے آپ کو وطن مالوف سے نکال دیا انہیں ہمارے حوالے کیا جائے کہ ہم ان کو تہ تیغ کردیں۔ عقیل کو حضرت علی کے سپرد کریں اور میرا رشتہ دار میری تحویل میں کردیں اور عباس کو حضرت حمزہ کے حوالے کردیں کہ وہ اپنے رشتہ داروں کی گردنیں اڑا دیں کیونکہ یہ کفر کے پیشوا ہیں عبداللہ بن رواحہ کی رائے سب سے زیادہ تشدد آمیز تھی کہ کوئی میدان جس میں ہیزم کثیر فراہم ہو تلاش کریں اور اساریٰ بدر کو اس میدان میں داخل کرکے آتش مشتعل کردیں۔ حضرت عباس سے رہا نہ گیا وہ بول اٹھے کے تو قاطع رحم ہے تب مسلمان حضرتﷺ کے تشریف لے جانے کے بعد رائے زنیاں کرنے لگے۔ کوئی کہتا تھا کہ حضرت ابو بکر کی رائے قبول ہوگی کسی کا خیال تھا کہ حضرت عمر کی رائے پر عمل ہوگا۔ کسی کو معلوم ہوتا تھا کہ عبداللہ بن رواحہ کی تجویز پاس ہو گی حضورﷺ گھر سے تشریف لاکر فرمانے لگے کہ بعض دلوں کو خدا اتنا نرم کردیتا ہے کہ وہ دودھ سے زیادہ نرم ہوجاتے ہیں اور بعض کو پتھروں سے زیادہ سنگین بنا دیتا ہے ابو بکر! تمہارا حال حضرت ابراہیم سے ملتا جلتا ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جو میرا متبع ہو وہ میری جماعت میں داخل ہے اور جو میرا حکم بردار نہیں تو میں نہیں کہتا کہ تو اسے سزا دے تو بخشنے والا مہربان ہے ابو بکر! تمہارا حال حضرت عیسیٰ سے بھی لگائو کھاتا ہے کہ آپ نے فرمایا اے خداوند! اگر تو انہیں عذاب کرے تو بجا ہے کیونکر یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو انہیں معافی دے دے تو تجھ سے کوئی دوسرا زبردست اور حکیم نہیں جو تجھے