۲… تحقق جزو کا مستلزم تحقق کل نہیں۔ ورنہ لازم آئے گا کہ جملہ اہل ایمان جو رؤیا دیکھتے ہیں نبی قرار دئیے جائیں۔ اور لازم باطل ہے۔ فکذاالملزوم
انبیاء اور مومنین کی رؤیا میں بون بعید ہے
اور نیز یہ نتیجہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انبیاء اور مؤمنین کی رویاء یا مساوی ہو حالانکہ ان میں فرق ہے۔ انبیاء کی رویا قطعی بمنزلۃ وحی ہوتی ہے۔ برخلاف عامہ مؤمنین کے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی رویاء کو وحی کا ردیف سمجھا لیکن عام اہل ایمان کی رویاء کی شان نہیں۔
تحقق جزو موجب تحقق کل نہیں
خود حضور علیہ السلام کی دوسری حدیث اس کی تائید کررہی ہے کہ جزو کا تحقق موجب تحقق نبوت نہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے: ’’ذہبت النّبوۃ وبقیت المبشرات والرویاء الصالحۃ جزء من ستۃ اربعین جزء من النّبوۃ (مدارک)‘‘ یعنی نبوت مرتفع ہوگئی ہے اور رویاء صالحہ جو نبوت کا چھیالیسواں حصہ ہے باقی ہے۔ ایک جزو سے نبوت کا مفہوم مکمل نہیں ہوسکتا اس لئے کہا ذہبت النّبوۃ اس قضیہ کو سمجھنے کے لئے حسب ذیل امثلہ پر غور کرو۔
نماز کے ایک رکن کے ادا کرنے کو نماز نہیں کہتے
نماز ارکان متعد دہ اور واجبات اور شرائط وسنن اور مستحبات اور آداب پر مشتمل ہے اگر کوئی صرف سجدہ یا رکوع کو بجا لائے تو اسے مصلی نہیں کہا جاتا۔
اذان کا ایک کلمہ کہنا اذان نہیں
اور ایسے ہی اذان کہ سترہ کلمات پر حاوی ہے اگر کوئی ذاکر اس کا صرف ایک کلمہ اللہ اکبر یا لا الہ الا اﷲ یا اشہد ان لا الہ الا اﷲ پڑھے تو مؤذن نہیں کہلاتا جب تک سارے کلمات ادا نہ کرے اسی طرح نبوت کا ایک جزو باقی رہنے سے یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ دنیا میں اس حصہ نبوت سے متصف ہوکر نبی پیدا ہوسکتے ہیں۔
علامہ خازن
علامہ خازن نے تفسیر میں لکھا ہے: ’’فاذا وقع لا حدفی المنام الاخبار بغیب یکون ہذاء القدر جزء امن النّبوۃ لاانہ نبی واذا وقع لا حدفی المنام یکون صدقا‘‘ جب کسی رائے پر خواب میں اخبار غیبی ظاہر ہوں تو یہ نبوت کا حصہ ہے یہ نہیں کہ وہ نبی ہوجاتا ہے۔ غایت مافی الباب ایسی خواب سچی نکلتی ہے۔