والیہ تجتمع الشعوب‘‘ یعنی نبی ہمیشہ بنی اسرائیل میں سے ہوتے رہیں گے۔ یہاں تک کہ وہ نبی پیدا ہو جس کی اتباع پر تمام قومیں مامور ہیں۔ یعنی حضرت محمدﷺ جن کی دعوت سب دنیا کے لئے عام ہے۔ اس وقت نبوت بنی اسرائیل سے خارج ہوجائے گی اور تمام امتیں اس نبی کی انتظار میں ہیں کیونکہ ہر نبی نے اپنی اپنی امت سے ان کا تذکرہ کردیا ہے۔ اور آسمانی صحائف بتمامہا ان کی بشارتوں سے پر ہیں دنیا کی جملہ اقوام ان کے مذہب میں داخل ہوں گی یہ ان کا اجتماع ہے جس کی طرف فقرہ الیہ تجتمع الشعوب میں اشارہ کیا گیا ہے۔ اگر آ پکے بعد کوئی نبی پیدا ہو اور کسی زمانہ کی رسالت کو اس کے ساتھ وابستہ سمجھا جائے تو حضرت کی دعوت عام نہیں رہتی بلکہ بعض از منہ سے مخصوص ہوجاتی ہے جو خلاف قرآن وسنت واجتماع ہے۔
بائبل پکار پکار کہتی ہے کہ حضرت خاتم الانبیاء ہیں
کتاب یسعیاہ سے ختم نبوت کا ثبوت
یسعیاہ باب ۴۹ میں ہے۔ اے بحری سر زمینو! میری سنو! اے لوگو! جو تم دور ہو کان دھرو خداوند نے مجھے رحم سے بلایا میں جب سے اپنی ماں کے پیٹ سے نکلا تب ہی سے اس نے میرے نام کو مذکور کیا اور اس نے میرے منہ کو تیز تلوار کی مانند کیا اور مجھ کو اپنے ہاتھ کے سایہ تلے چھپایا اور اس نے مجھے تیرآبدار کیا اور اپنے ترکش میں مجھے چھپارکھا اور اس نے مجھ سے کہا کہ تو میرا بندہ ہے۔
تشریح
بحری زمین کی تخصیص اس لئے ہے کہ حضور جزیرۃ العرب میں پیدا ہوئے اور اہل جزیرہ کو سب سے اول حق کی دعوت دی اور کہا اے بحری سر زمینو میری سنو! پھر عرب کے جزیرہ سے متجاوز ہوکر دنیا کے تمام بلاد ممالک میں جو دور دراز واقع ہیں۔
صدائے دعوت پہنچائی اور کہا کہ اے لوگو جو تم دور ہو کان دھرو اس نے میرا نام مذکور کیا حضرتؐ کا ذکر احبار رہبان وشعراء کاہنوں وجنوں واصنام کی زبان پر جاری تھا
آنحضرتﷺ ابھی تو لد نہ ہوئے تھے کہ احبار اور رہبان اور کاہنوں اور نجومیوں کی زبان پر آپ کا تذکرہ اشاعت پذیر تھا اور شاعروں نے اپنے قصائد کو حضور کے ذکر سے زیب وزینت بخشی۔ یہود میں سے عبداللہ بن سلام اور پسران سعید اور ابن یامین اور میخریق اور کعب