برخلاف اور کتابوں سابقہ کے کہ وہ دفعتہ نازل ہوجایا کرتی تھیں۔ اس لئے ان کا حافظ عنقاء کا حکم رکھتا تھا: ’’وقراٰنا فرقناہ لتقرؤہ علی الناس علی مکث ونزلناہ تنزیلا‘‘ یعنی ہم نے قرآن کو رفتہ رفتہ نازل کیا ہے تاکہ تو تھوڑے تھوڑے وقفہ سے لوگوں میں پڑھ کر سنائے اور وہ اس پر بلا تکلف عمل کرسکیں اور بغیر اشکال حفظ کرلیں اور سورہ فرقان میں فرمایا: ’’وقالوا لولا نزل ہذا القرآن جملۃ واحدۃ کذالک لنثبت بہ فوادک ورتّلنا ترتیلا‘‘ یعنی قرآن کو رفتہ رفتہ منجم طور پر نازل کرنے کی دو وجوہات ہیں ایک تو مخالفین کے اعتراضات کا دندان شکن جواب دے کر آنحضرتﷺ کے دل کو مطمئن کرنا مقصود ہے۔ دوئم ترتیل قرأت پیش نظر ہے۔ کہ امی قوم اسے ضبط رکھ سکے۔
قرآن کی پیش گوئی یسعیاہ کی کتاب میں
چنانچہ یسعیاہ باب ۲۸ آیت ۹ لغایت ۱۳ میں اس کتاب کی طرف ان لفظوں میں ارشاد کیا گیا ہے۔ ’’وہ کس کو دانش سکھاوے گا وہ کس کو وعظ کرکے سمجھائے گا۔ ان کو جن کا دودھ چھڑایا گیا جو چھاتیوں سے جدا کئے گئے کیونکہ حکم پر حکم حکم پر حکم۔ قانون پر قانون قانون پر قانون ہوتا جاتا تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں ہاں وہ وحشی کے سے ہونٹوں اور اجنبی زبان سے اس گروہ کے ساتھ باتیں کرے گا کہ اس نے ان سے کہا کہ وہ آرام گاہ ہے تم ان کو جو تھکے ہوئے ہیں آرام دیجئو اور یہ چین کی حالت ہے۔ پردے شنواء نہ ہوئے سو خداوند کا کلام ان سے یہ ہوگا حکم پر حکم حکم پر حکم۔ قانون پر قانون قانون پر قانون تھوڑا یہاں تھوڑا وہاں تاکہ دے چلے جائیں اور پچھاڑی کریں اور شکست کھائیں اور دام میں پھنسیں اور گرفتار ہوویں۔‘‘
پیشگوئی مذکور کی تشریح
یعنی نبیﷺ امتیوں کو دانش سکھا دیں گے اور ان کو وعظ کرکے سمجھا دیں گے۔ گویا چھاتیوں سے الگ ہونا علم کے دودھ سے محروم رہنے کے لئے ایک لطیف استعارہ ہے اور قرآن ان کی ان پڑھ ہونے کے باعث منجم طور پر باقساط متعددہ نازل ہوگا کچھ مکہ میں کچھ مدینہ میں کچھ سفر میں کچھ حضر میں اور آنحضرتﷺ کی قوم حضورﷺ کے مقابلہ میں شکست کھائے گی۔ چنانچہ اہل عرب کے علاوہ دوسری قوموں نے آنحضرت کی صداقت کا یہ معیار قائم کررکھا تھا کہ اگر آپ اپنی قوم پر غالب آئے تو صادق ہیں۔ مشکوٰۃ میں حدیث مروی ہے: ’’وکانوا یتلو مون باسلامہم الفتح ویقولون اترکوہ وقومہ فان ظہر علیہم فانہ نبی‘‘یعنی اسلام لانے کے لئے لوگوں نے فتح مکہ کا دن مقرر کررکھا تھا اور کہتے تھے کہ اس نبی کو اپنے حال پر چھوڑ دو