الیٰ العرب وکالخرمیۃ الاقائلین بتواتر الرسل وکاکثر الرافضۃ القائلین بمشارکت علیٰ فی الرسالۃ للنبیﷺ وبعدہ وکذالک کل امام عند ہئولاء یقوم مقامہ فی النبوۃ والحجۃ وکالبزینیۃ والبیانیۃ منہم القائلین نبوۃ بزیغ وبیان واشباہ ہئولاء ومن ادعیٰ النبوۃ لنفسہ وجوّز اکتسابہا والبلوغ بصفاء والقلب الیٰ مرتبتہا کالفلاسفۃ وغلاۃ المتصوفۃ وکذالک من ادعیٰ منہم انہ یوحیٰ الیہ وان لم یدع النبوۃ اوانہ یصعد الی السماء ویدخل الجنۃ و یأکل من ثمارہا ویعانق الحور العین فہؤلاء کلہم کفار مکذبون للنبیﷺ لانہ اخبرانہﷺ خاتم النّبیین ولا نبی بعدہ واخبر عن اﷲ تعالیٰ انہ خاتم النّبیین وانہ ارسل کافۃً للناس واجمعت الامۃ علیٰ حمل ہذا الکلام علیٰ ظاہرۃ وان مفہومۃ المرادبہ دون تاویل ولا تخصیص فلا شک فی کفر ہئولاء الطوائف کلہا قطعا اجماعاً وسمعاً (ص۳۶۲)‘‘
{جو آنحضرتﷺ کے ساتھ کسی کو آپ کے عہد میں یا بعد ازاں شریک نبوت قرار دے جیسے عیسویہ گروہ کہتا ہے کہ آنحضرت رسول صادق ہیں لیکن آپ کی رسالت خطہ عرب سے مخصوص ہے اور خرمیہ جماعت کا مذہب ہے کہ رسول متواتر آتے رہیں گے اور اکثر رافضہ کہتے ہیں کہ حضرت علیؓ آنحضرت کے ساتھ شریک رسالت ہیں اور ایسے ہی ہر ایک امام بخیال شیعہ نبوت اور تحدی میں قائم مقام نبی ہے اور بزیعیہ کا خیال ہے کہ بزیع نبی تھا اور بیانیہ کا زعم ہے کہ بیان پیغمبر تھا اور ایسے ہی دیگر جماعتیں یا جو خود نبوت کا مدعی ہو اور یہ کہے کہ نبوت محنت ریاضت اتباع اور صفاء قلبی سے حاصل ہوسکتی ہے جیسے فلاسفہ اور غلاّٰۃ صوفیہ کا دعویٰ ہے اور ان میں سے یہ دعویٰ کرے کہ مجھ پر وحی الٰہی نازل ہوئی ہے گو نبوت کا مدعی بھی نہ ہو یا کہے کہ وہ آسمان پر جا کر داخل جنت ہوتا اور میوہ خوری کرتا اور حوروں سے معانقہ کرتا ہے اس قسم کے تمام مدعی کافر اور آنحضرت کے مکذب ہیں۔ کیونکہ سرور کائنات ﷺ نے بتلایا ہے کہ میں خاتم النّبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا اور خدائے تعالیٰ کا قول بھی نقل کیا ہے کہ حضرت محمدﷺ خاتم النّبیین ہیں اور آپﷺ کی رسالت جملہ خلق اللہ کے لئے عام ہے اور امت نے بالاتفاق لفظ خاتم النّبیین کو بغیر کسی تاویل اور تخصیص کے ظاہر معنے پر محمول کیا ہے۔ پس ایسی جماعتوں کے کفر میں کوئی شک نہیں یقینا اجماعاً اخباراً دائرہ اسلام سے خارج ہیں۔}
چونکہ یہ مسئلہ اجماعی ہے اس لئے اہل عقائد نے اسے بالاتفاق کتب عقائد میں درج