جائے گی اور اس کو جو اس کے پہلے لائی جائے گی اور جو اس پتھر پر گرے گا اس کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں گے مگر جس پر وہ گرے گا اسے پیس ڈالے گا۔‘‘
انجیل کی عبارت حسب ذیل اقتباسات پر مشتمل ہے۔ باب۲۱ آیت ۴۲ لغایت۴۴
اقتباس اوّل
۱… پتھر سے مراد حضور سرور کائنات کی ذات اطہر ہے کیونکہ آپ مضبوط اور پائیدار ہونے میں اس کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں۔ متنبی کا قول ہے۔
انا صخرۃ الوادی اذا ما زوحمت
واذا نطقت فاننی الجوزاء
پتھر کا قاعدہ ہے کہ دوسری چیز کو توڑ ڈالتا ہے اور خود شکستہ نہیں ہوتا اسی طرح حضور دوسری سلطنتوں کو پامال کردیں گے۔ مگر آپ کی سلطنت کو تا ابدزوال نہ ہوگا۔
دانیال باب۲ میں اس کی تشریح موجود ہے۔
’’اور دیکھ ایک بڑی مورت تھی وہ بڑی مورت جس کی رونق بے نہایت تھی تیرے سامنے کھڑی ہوئی اور اس کی صورت ہیبت ناک تھی۔ اس مورت کا سر خالص سونے کا تھا۔ اس کا سینہ اور اس کے بازو چاندی کے اور اس کا شکم اور رانیں تانبے کی تھیں اس کی ٹانگیں لوہے کی اور اس کے پائوں کچھ لوہے کہ اور کچھ مٹی کے تھے اور تو اسے دیکھتا رہا۔ یہاں تک کہ ایک پتھر بغیر اس کے کہ کوئی ہاتھ سے کاٹ کے نکالے۔ آپ سے نکلا جو اس شکل کے پائوں پر جو لوہے اور مٹی کے تھے لگا اور انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا تب لوہا اور مٹی اور تانبا اور چاندی اور سونا ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے اور تابستانی کھلیان کی بھوسی کی مانند ہوئے اور ہوا انہیں اڑالے گئی یہاں تک کہ ان کا پتہ نہ ملا اور وہ پتھر جس نے اس مورت کو مارا ایک بڑا پہاڑ بن گیا اور تمام زمین کو بھر دیا۔ وہ خواب یہ ہے اور اس کی تعبیر بادشاہ کے حضور بیان کرتا ہوں تو اے بادشاہ بادشاہوں کا بادشاہ۔ اس لئے کہ آسمان کے خدانے تجھے ایک بادشاہت اور قوت اور توانائی اور شوکت بخشی ہے اور جہاں کہیں بنی آدم سکونت کرتے ہیں اس نے میدان کے چوپائے اور ہوا کے پرندے تیرے قابو میں کردئیے اور تجھے ان سبھوں کا حاکم کیا تو ہی وہ سونے کا سر ہے اور تیرے بعد ایک اور سلطنت برپا ہوگی جو تجھ سے چھوٹی ہے اور اس کے بعد ایک اور سلطنت تانبے کی جو تمام زمین پر حکومت کرے گی اور چوتھی سلطنت لوہے کی مانند مضبوط ہوگی اور جس طرح کہ لوہا توڑ ڈالتا ہے اور سب چیزوں پر غالب ہوتا ہے۔ ہاں لوہے کی طرح سے جو سب چیزوں کو ٹکڑے ٹکڑے کرتا ہے اسی طرح وہ ٹکڑے ٹکڑے کرے گی