خازن نے بیان کیا ہے: ’’المقفے ہو المولیٰ الذاہب یعنی اٰخر الانبیاء المتبع لہم فاذا قفی فلا نبی بعدہ‘‘ یعنی مقفے سے مراد آخر الانبیاء ہے۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جو اس تاویل سے پاک ہے جو مرزا قادیانی نے خاتم النّبیین کے لفظ میں اسکے اصلی مفہوم کو مشتبہ کرنے کی خاطر بیان کی ہے۔ خدا اپنے کلمات کو حد اشتباہ سے منزہ کردیتا ہے تاکہ خلق اللہ تلبیس میں واقع نہ ہو۔
حدیث چہارم
ترمذی اور مسلم نے جبیر بن مطعم سے مرفوعاً روایت کیا ہے: ’’ان لی اسماء انا محمد وانا احمد وانا الماحی الذی یمحوا اﷲ بی الکفر وانا الحاشر الذی یحشر الناس علیٰ قدمی وانا العاقب والعاقب الذی لیس بعدہ نبی(ترمذی شریف ج۲ ص۱۱۱، مسلم شریف ج۲ ص۲۶۱)‘‘ یعنی میرے کئی نام ہیں میں محمد بھی ہوں اور احمد بھی اور ماحی میرا نام ہے خدا روئے زمین سے میرے ذریعہ کفر کو نابود کرے گا۔ سب سے پہلے میرا حشر ہوگا لوگ میرے بعد قبروں سے نکلیں گے۔ اس لئے میرا نام حاشر ہوا اور عاقب بھی میرا نام ہے کیونکہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ مقفی کی طرح یہ لفظ بھی بے جا حاشیہ اور تاویل سے منزہ ہے۔
حدیث پنجم
ترمذی نے حضرت علی سے روایت کیا ہے: ’’واذ التفت التیقت معاً بین کتفیہ خاتم النّبوۃ وہو خاتم النّبیین‘‘ یعنی آنحضرت کا مڑ کر دیکھنا بڑی سرعت سے عمل میں آتا تھا۔ آپ کے شانہ مبارک پر مہر نبوت کا نشان موجود تھا اور آپ خاتم النّبیین تھے۔
حدیث ششم
بغوی نے عرباض بن ساریہ سے اور احمد نے ابو امامہ سے روایت کیا ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: ’’انی عند اﷲ مکتوب خاتم النّبیین وان اٰدم لمنجدل فی طینۃ (الحدیث)‘‘ یعنی میں خدا کے ہاں اس وقت بھی خاتم النّبیین لکھا ہوا تھا کہ جبکہ آدم علیہ السلام اپنے خمیر میں لیٹے ہوئے تھے۔
حدیث ہفتم
حضرت جابرؓ نے آنحضرت سے نقل کیا ہے: ’’انا قائد المرسلین ولا فخر وانا اول شافع ومشفع ولا فخر رواہ الدارمی‘‘ یعنی میں مرسلوں کا پیشترو ہوں۔ اور مجھے اس پر کوئی ناز نہیں اور میں خاتم النّبیین ہوں اور مجھے کچھ غرور نہیں اور میں شفیع اول مستجاب