ہو یعنی محمدﷺ کی نسبت قوم کو یہ وہم تھا کہ زید ان کا بیٹا ہے تو خدا نے پہلے اس کی نفی کی اس نفی کے ضمن میں ایک دوسرا وہم پیدا ہوتا تھا کہ محمدﷺ کو خدائے تعالیٰ نے نعمت اولاد نرینہ سے محروم کردیا تو خدا نے اس وہم کو اس طرح رفع کیا کہ نعمت سے محروم نہیں کیا۔ بلکہ آپ کی ذات پر انعام کو مکمل کیا ہے کہ آئندہ کے لئے باب نبوت مسدود کردیا جائے۔ اب آنحضرت کی حکومت روحانی تا ابد قائم رہے گی اور یہ بڑا افضل ہے ارشاد ہے: ’’ان فضلہ کان علیک کبیرا‘‘ اگر اولاد نرینہ آپ کی موجود ہوتی تو ختم نبوت کا کمال آپ کو حاصل نہ ہوتا۔ علامہ خازن نے لباب التاویل میں لکھا ہے: ’’ختم اﷲ بہ النبوۃ فلا نبوۃ بعدہ ای ولا معہ قال ابن عباس یرید لو لم اختم بہ النّبیین لجعلت لہ ابنایکون بعدہ نبیاوعنہ قال ان اﷲ لما حکم ان لا نبی بعدہ لم یعطہ ولداً ذکراً یصیرا رجلا وکان اﷲ بکل شیء علیما ای دخل فی علمہ انہ لا نبی بعدہ‘‘ یعنی خدا نے حضرت کی ذات پر نبوت کو ختم کردیا ہے۔ آپﷺ کے زمانہ میں اور نیز آپ کے زمانہ کے بعد کوئی پیغمبر نہ ہوگا۔ حضرت ابن عباسؓ کا قول ہے کہ اگر میں نبوت کو ختم نہ کرتا تو آنحضرتﷺ کے لئے اولاد نرینہ دیتا جو آپ کے پیچھے پیغمبر ہوتی اور ایک روایت میں یوں آیا ہے کہ خدا جب یہ قطعی فیصلہ کرچکا کہ حضورﷺ کے بعد نبوت ختم ہے تو آپﷺ کو ایسی اولاد نرینہ نہ بخشی جو بالغ ہوکر منصب نبوت پر ممتاز ہونے کے قابل ہو اور یہ بات خدا کے علم میں پہلے سے شامل تھی کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ علامہ سلیمان نے جمل میں تحریر فرمایا ہے: ’’لانہ لوبقی لہ ابن بالغ بعدہ لکان اللائق بہ ان یکون نبیا بعدہ فلا یکون ہو خاتم النّبیین (زادہ) واورد فی الکشف منع الملازمۃ اذ کثیر من اولاد الانبیاء لم یکونوا انبیاء فانہ اعلم حیث یجعل رسالتہ واجاب الشہاب عن ذلک بقولہ الملازمۃ لیست علی اللزوم العقلی والقیاس المنطقے بل علیٰ مقتضیٰ الحکمۃ الالہیۃ وہی ان اﷲ اکرم بعض الرسل یجعل اولادہم انبیاء کالخلیل ونبینا اکرمہم وافضلہم فلوعاش اولادہ اقتضی تشریف اﷲ لہ جعلہم انبیائ‘‘ یعنی اگر کوئی آپ کا بالغ لڑکا زندہ رہتا تو لائق تھا کہ وہ آپ کے بعد منصب نبوت پر ممتاز ہوتا لیکن علامہ نے کشف میں کہا ہے کہ یہ ملازمت ممنوع ہے بہت انبیاء ایسے گزرے ہیں جن کی اولاد پیغمبر نہیں اگر حضرت کی اولاد نبی نہ ہوتی تو کوئی محذور لازم نہ آتا تھا۔ علامہ شہاب نے جواب دیا کہ ملازمت لزوم عقلی اور قیاس منطقی کے لحاظ سے مراد نہیں بلکہ حکمت الٰہیہ کا تقاضا یہ تھا کہ خدا نے بعض انبیاء کو یہ شرف بخشا ہے کہ ان کی