کسی حدیث پر جرح مبہم کی جائے وہ بھی پایۂ اعتبار سے ساقط نہیں ہوتی اور جرح مبہم کسی حدیث کو ناقابل استدلال نہیں کرسکتی ورنہ ہر حدیث کو جو چاہے نامعتبر بتا دیا کرے۔ کبھی اصول حدیث کو خواب میں بھی دیکھا ہے۔ کچھ بودگی تھی تو وجہ ضعف لکھی ہوتی اور اور ایک حدیث ضعیف بھی ہوتی تو جب اس مضمون کی بکثرت صحیح حدیثیں وارد ہیں اور اس پر امت کا اجماع ہے تو انکار کا کیا محل؟ بلکہ فرض کرو کوئی اور حدیث اس مضمون کی نہ ہوتی صرف ایک حدیث ہی ہوتی اور وہ بھی ضعیف ہوتی تو کیا قابل انکار تھی؟ بقول مرزا قادیانی تھی تو حدیث ہی، کس مدعی مہدیت ومسیحیت کے الہام کی ڈینگ تو نہ تھی کیوں نہ مانی جاتی۔ ضعیف حدیث اس وقت چھوڑی جاتی ہے جبکہ وہ قوی وصحیح کے معارض ہو، اس کا معارض ہی کہاں ہے؟ افسوس بے علمی اور مدارک علمیہ میں دخل دے کر اپنا ایمان برباد کرنا۔ اﷲ ہدایت کرے۔
مؤطا امام مالک کی حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے اس سے یہ معنی نکالنا کہ حضرت عائشہؓ کے حجرہ میں تین مقبروں ہی کا ہونا مقدر تھا۔ حافظ جی کی مزید جہالت کا ثبوت ہے۔ حدیث میں اس کی رمق بھی نہیں یہ خالص افتراء اور محض بہتان ہے۔ غیرت ہو تو حدیث میں وہ لفظ بتائیں جس کا ترجمہ یہ ہو کہ حجرہ صدیقہ میں تین قبروں ہی کا ہونا مقدر تھا۔ آپ کے دین کا مدار ایسی افتراء پر درازیوں پر ہی ہے؟ ثبوت شے کا نفی ماعدا کی دلیل کس نے مانا ہے؟ یہ تو ایک علمی اصول ہے آپ اس کو نہ سمجھ سکے تو اتنا سمجھنا بھی آپ کی عقل سے بالاتر تھا کہ خواب میں کسی کو ایک شے کے پیدا ہونے کی خبر ملنا اس کے اور اولاد ہونے کا انکار نہیں۔ خواب کے ذریعہ سے حضرت امام حسنؓ کی ولادت کی خبر دی گئی تو کیا اس کے یہ معنی ہیں کہ حضرت خاتون جنت کے اور اولاد ہی نہ ہوگی۔ اگر حضرت صدیقہؓ کے اس خواب میں ان کے حجرۂ مبارکہ میں حضور سید عالمﷺ اور شیخین جلیلین کے مدفون ہونے کی خبر ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ حضرت صدیقہؓ کے زمانہ میں یہ تین حضرات آرام فرمائیں گے۔ نہ یہ معنی کہ پھر اور قبر ہی نہ ہوگی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا دفن ان کے زمانہ میں نہیں اس لئے ان کی خواب میں اس کا بیان بھی نہیں اوربیان کی حاجت بھی کیا جبکہ صحیح حدیثوں میں صراحت کے ساتھ اس کا بیان موجود ہے تو کیا خواب میں اس کا بیان نہ ہونے سے ان تمام صحیح احادیث کا انکار جائز ہوجائے گا؟
نفس امر یہ ہے کہ مرزائی اور حدیث سمجھیں؟ وہ تو سمجھے ہیں، نہ سمجھیں گے، دین میں