اب سوال فقط اسی قدر باقی رہ گیا کہ جب مرزائی توبہ سے مراد مرزائی بننا لے رہے ہیں تو کیا محمدی بیگم کی والدہ نے مرزائیت کو قبول کیا؟ ہرگز نہیں ہرگز نہیں۔ جب نہیں تو وہ بلا بھی کیوں ٹلی؟ پھر یہ کہنا کہ ’’قریباً سارا خاندان مرزائی بن گیا۔‘‘ کھلا جھوٹ۔
مرزا احمد بیگ کا اسلام پر مرنا ظاہر۔ حافظ جی کو تسلیم کہ مرزائی نہیں ہوا ان کا داماد محمدی بیگم کا شوہر مرزائی نہیں ہوا۔ محمدی بیگم الحمدﷲ مسلمہ ہے بلکہ اس کی اولاد بھی ماشاء اﷲ مسلمان وہ اور اس کے قریبی اعزاء واقرباء سب کے سب بمنہ تعالیٰ اسلام پر قائم اور مرزائیت سے بیز ار بلکہ ان علمائے حقانی کے اعوان وانصار جو مرزائیوں سے برسرپیکار۔ پھر بلاٹلی تو کیوں ٹلی؟
۲… نکاح بلا ہے؟ عذاب ہے؟ یا کیا؟
مرزا قادیانی کہتے ہیں۔’’ یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور رحمت کا نشان ہوگا۔ ان تمام برکتوں اور رحمتوں سے حصہ پائو گے جو اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۸ء میں مندرج ہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۱،۲۸۸، خزائن ج۵ ص۲۸۶)
توبی توبی کے کلمات کو اگر شرط مان بھی لیا جائے تو اس سے بلاٹلنی چاہئے، نہ کہ رحمت وبرکت۔ پس یا تو یوں کہا جائے کہ نکاح نہ تھا بلا تھا۔ (محمدی بیگم کے لئے نہ سہی مرزا جی کے لئے سہی) یا یہ کہئے کہ توبہ کا علاقہ نکاح سے نہ تھا۔ دونوں شکلوں میں ہمارا دعویٰ ثابت۔ ہمارا بیان صرف نفس نکاح کے متعلق تھا کہ:
۱… اس کو مقدر بتایا گیا۔
۲… خدا کا نہ ٹلنے والا وعدہ کہا گیا، وہ ٹل گیا۔ لہٰذا خدا کا وعدہ نہ تھا۔ مقدر نہ تھا اور مرزا قادیانی کا یہ دعویٰ جھوٹا، الہام جھوٹا۔
۳… مرزا قادیانی نے کہا کہ اگر یہ نکاح نہ ہوا تو۔
الف… مرزا قادیانی ہربد سے بدتر ٹھہریں گے، مفتری ہوں گے، کذاب ہوں گے۔
ب… ان کے تمام دعوے جھوٹے ہوں گے۔
ج… مرزا قادیانی ذلیل ہوں گے، روسیاہ ہوں گے، ناک کٹ جائے گی۔
کسی نے توبہ کی یا نہ کی، عذاب ٹلا یا نہ ٹلا۔ ہمیں سردست اس سے کچھ غرض نہیں۔ مرزا جی کے دعوے اور یہ امر واقعہ سامنے ہے کہ نکاح نہ ہوا۔ فیصلہ ہم نہیں کرتے خدا نے کیا اور جو ہونا تھا ہوگیا۔ مرزا قادیانی کو جو بننا تھا بن گئے۔ اگر سادہ لوح افراد کی آنکھیں اب بھی نہ کھلیں تو وہ جانیں۔