مرزا قادیانی کی قابلیت کی داد دے گا۔ ہمیں افسوس ہے کہ محض بدیں خیال کہ کہیں مارشس کے سادہ لوح اس افسوس میں نہ آجائیں۔ ایسی تحریر پر تنقید کی ضرورت لاحق ہورہی ہے۔ ورنہ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی لغو تحریر پر تبصرہ کرنا بھی شان علمی کے خلاف۔ اس لئے کہ سب سے پہلے تو یہی بات قابل لحاظ کے اس خبر ہی کا کیا اعتبار پھر اگر بالفرض کسی تاریخ سے اس کا پتہ بھی مل جائے تو اس کا کیا ثبوت کہ یہ کرشن جی ہی کے متعلق ہے اس لئے کہ نام تو کاہن بتایا گیا نہ کرشن، پھر اگر اس کو علم نہ مانا جائے بلکہ اسم صفت ہی مانیں تو حافظ جی کرشن جی کو کالا بتائیں ساری ہندو جاتی تو آج تک ان کو ایسا ملیح وخوبصورت مانتی چلی آرہی ہے کہ گوپھیاں ان پر فدا تھیں بلکہ آج بھی متھرا میں گنگا کے کنارے بہت سی خدا کی بندیاں اسی امید پر کہ کسی موہنی روپ میں ان کے درشن ہوجائیں سب کچھ تجنے کے لئے تیار رہتی ہیں۔
ممکن ہے کہ یہ کاہن وہی یوز آسف ہو جو ہندوستان کے صوبہ سولابت میں راجہ جنسر کے گھر پیدا ہوا شاہزادہ نبی کہلایا، کشمیر گیا وہیں مرا وہیں دفن کیا گیا۔ آج تک اس کی قبر شہزادہ نبی کی قبر کہلاتی اور اسی نام سے پہچانی جاتی ہے۔ بعض روایتیں اس کے متعلق ایسی بیان بھی کی جاتی ہیں جو اس کی کہانت پر دلالت کرسکتی ہیں۔ (تفصیل حال کے لئے کتاب یوزآسف اور بلوہر مترجمہ مولوی سید عبدالغنی مطبوعہ مطبع ہاشمی دہلی ص۳۵۸ کو دیکھا جاسکتا ہے) مرزا قادیانی نے اس قبر کو حضرت مسیح علیہ السلام کی قبر تصنیف کرڈالا۔
پھر اور آگے بڑھئے مرزا قادیانی تو نہ کرشن کی نبوت بتاتے ہیں، نہ اس کی نبوت کا ظہور، وہ تو صاف فرماتے ہیں کہ : ’’میں راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں بڑا اوتار تھا۔ پھر آگے چل کر گیتا کو فی الجملہ الہامی کتاب مانتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان (مرزا قادیانی) پر الہام ہوا ہے۔ ‘‘
یا للعجب ہم وید میں توحید کا جلوہ دکھائیں تو ہم پر اعتراض، یہ گیتا کو الہامی مانیں تو بھی کچھ نہیں۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں کرتے
’’کرشن رودھر گوپال تیری مہما گیتا میں لکھی گئی ہے۔‘‘
(سیالکوٹ ص۳۴، خزائن ج۲۰ ص۳۲۹)
مرزا قادیانی نے گیتا کا حوالہ دے کر خود واضح کردیا کہ ان کی مراد کیا ہے؟ گیتا میں