۲… اور حافظ جی جیسے چیلے آسمانی نکاح والوں کے متعلق واقعات میں ایسی ہی عجیب وغریب تاویل فرماتے اور پھر حوالہ لکھتے ہیں کہ ’’لڑکی۸،۹ برس کی تھی اس پر نفسانی افترائ…حماقت ہے۔‘‘
شاید انہوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ دنیا میں کوئی سمجھدار باقی ہی نہیں رہا جو یہ جانتا ہو کہ اگر بالفرض ۸،۹ برس ہی کی عمر مان لی جائے تو ہندوستان اور بالخصوص پنجاب میں اتنی عمر کی اچھے کھاتے پیتے گھرانوں کی بچیاں کیسی ہوتی ہیں۔
بہرنوع ہم یہ تو تسلیم کرتے ہیں کہ اوتار کہئے، بروز کہئے یا ظہور سے تعبیر کیجئے یا آئینہ کی تصویر کو تمثیل بنائیے مرزا جی اپنے دعاوی کے اعتبار سے جو کچھ بھی ہیں کرشن جی کے ہیں۔ اس لئے کہ:
۱… کرشن جی نے اوتار یا حلول کا مسئلہ سکھایا۔ مرزا قادیانی نے بھی ’’انت منی وانا منک‘‘ (تو مجھ سے ہے میں تجھ سے ہوں۔)(حقیقت الوحی ص۷۴، خزائن ج۲۲ ص۷۷) کا مفروضہ الہام سنایا۔ پھر خدا کو (معاذ اﷲ) تیندوے سے تشبیہ دی اور ہاتھ پیر والا بھی بتایا۔
(توضیح المرام ص۷۵، خزائن ج۳ ص۹۰)
۲… کرشن جی نے تناسخ آواگون کا مسئلہ سکھایا مرزا قادیانی نے بھی سب کا بروز مثیل ظہور ہونے کا دعویٰ ایسی ہی شکل میں پیش فرمایا جس کا ترجمہ آسانی کے ساتھ آواگون ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا ان کا کرشن ہونا تو درست مگر کرشن ہوتے ہوئے مجدد ومہدی وعیسیٰ بن مریم بلکہ بقول حافظ جی احمد نبی بننا دشوار اور ان موحدین کی نورانی قبا کا اس صورت پر جو کرشن نما (یعنی بقول حافظ جی کالی) ہو پھبنا خود اس قباء کے لئے عار۔
ہمیں افسوس ہے کہ کرشن جی کی کوئی تیسری تصویر ہمیں کہیں سے دستیاب نہیں ہوتی، نہ کہیں قرآن کریم میں ان کا ذکر، نہ کسی اور آسمانی کتاب میں ان کا بیان، نہ کسی حدیث میں خبر، نہ کسی مستند تاریخ میں کوئی اثر، یہ مانا کہ ہندوستان میں بھی ہادی اور رہبر بلکہ انبیاء ورسل آئے ہوں مگر اس کی کیا دلیل کہ فلاں شخص نبی تھا؟
حافظ جی کو جب قرآن، حدیث، تفسیر، تاریخ کہیں بھی پتہ نہ ملا تو عجب بے تکی اڑائی کہ فلاں فلاں نے لکھا۔ کہ ’’ہندوستان میں ایک کالے رنگ والا نبی تھا جس کا نام کاہن تھا، چونکہ اس کا رنگ کالا بتایا گیا اور کرشن کے معنی بھی کالا، لہٰذا کرشن نبی تھا۔‘‘
اس بیان پر غالباً ایک معمولی سمجھ رکھنے والا بچہ بھی ہنس پڑے گا اور حافظ جی کی نہیں نہیں