والبیاض علیہ ثوبان ممصران کان راسہ یقطر وان لم یصبہ بلل فیدق الصلیب ویقتل الخنزیر ویضع الجزیۃ ویدعوا الناس الی الاسلام ویہلک اﷲ فی زمانہ الملل کلہا الا الاسلام (الیٰ ان قال) فیمکث اربعین سنۃ ثم یتوفیٰ ویصلی علیہ السلمون ویدفنونہ (اخرجہ ابن ابی شیبتہ واحمد وابودائود وابن جریر وابن حبان عن ابی ہریرۃؓ )‘‘ مرزائی دلائل کے خرمن پر یہ حدیث بجلی کا کام کررہی ہے اس لئے کہ اس میں حضور اکرمﷺ نے صاف لفظوں میں بتا دیا کہ تشریف لانے والے، نازل ہونے والے عیسیٰ بن مریم علیہ السلام وہی نبی ہیں جو مجھ سے پہلے نبی بن کر آچکے اور میرے اور ان کے درمیان کوئی اور نبی نہیں ہوا، وہی میری امت پر میرے خلیفہ بن کر تشریف لائیں گے۔ ان کا حلیہ بھی بتا دیا اور کام بھی سنا دیا۔
صحیح مسلم کی وہ حدیث جس کا حوالہ حافظ جی نے دیا وہ انہی عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے متعلق ہے نہ غلام احمد بن گھسیٹی کی بابت، ان پرانے نبی عیسیٰ بن مریم علیہما السلام کے آنے سے لا نبی بعدی کی حدیث میں تاویل کی ضرورت، نہ کسی دوسری حدیث سے تطبیق کی حاجت۔ اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور بہ شان خلافت خاتم نبوت ہوگا، نہ برائے اعلائے اظہار نبوت ورسالت۔ کتمان حق مرزائیوں کی عادت، اہل سنت کو اس حرکت سے سخت نفرت، قرآن کریم کی کسی آیت میں رب نے ہرگز ہرگز یہ خبر دی ہی نہیں کہ کسی نبی کی غلامی سے نعمت نبوت ودیعت کی جاتی ہے۔ حافظ جی کا قرآن عظیم پر کھلا افتراء ہے۔ جس کی سزا ان شآء ربی روز جزاء مل جائے گا۔
حافظ جی کا لا فتیٰ الاعلیٰ کے قول اور اذا ہلک کسریٰ فلا کسریٰ بعدہ…الخ کی حدیث میں جو لا ہے۔ اس کو لا الہ الا اﷲ اور لا نبی بعدی کے لا پر قیاس کرنا ایسی کھلی ہوئی جہالت ہے جس کو کوئی اہل علم تو کجا ایک معمولی صرف ونحو جاننے والا بچہ سننے کا بھی روا دار نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ اس کو خبر ہوگی کہ لا کتنی قسم کا ہوتا ہے؟ اور ہر قسم کی پہچان کے لئے کیا کیا قواعد ہیں؟ پھر یہ تو ایک معمولی اردو زبان میں تاریخ پڑھنے والا بھی جانتا ہوگا۔ کہ اگر لا کسریٰ اور لا قیصر کے کلمات میں بھی لا کے معنی وہی لئے جائیں تو بھی واقعات کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ اس لئے کہ یقینا مخبر صادق کے ارشاد کے مطابق کسریٰ کے کسرویت کا خاتمہ ہو ہی گیا۔ قیصر بھی ملک شام سے بھاگا اور اقلیم شام اس کے نام سے پاک ہوئی، اب نہ وہ کسرویت رہی نہ قیصریت۔ بادشاہ ہونا دوسری چیز ہے اور کسریٰ وقیصر کے القاب مخصوص دوسری چیز۔ حافظ جی کو عربی زبان سمجھنے کا سلیقہ تو کہاں سے ہوگا۔ کسی جاننے والے سے فتح الباری شرح بخاری میں اس کی تفصیل کا ترجمہ سن لیں تو ان کو کسریٰ وقیصر کے خاتمہ کا حال معلوم ہوجائے گا۔