انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بعرفاں نہ کمترم ز کسے
کم نیم زاں ہمہ بروئے یقیں
ہر کہ گوید دروغ است ولعیں
(نزول المسیح ص۱۰۰، خزائن ج۱۸ ص۴۷۸)
بلکہ اپنے آپ کو صاحب شریعت اولو العزم رسول حضرت عیسیٰ بن مریم سے تو صاف طور پر بہتر بتایا۔ ان کا مشہور شعر ہے۔
ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو
اس سے بہتر غلام احمد ہے
(دافع البلاء ص۲۰، خزائن ج۱۸ ص۲۴۰)
کیا اس تیرہ سو برس کے کسی مجدد نے، کسی سچے عالم نے ایسا دعویٰ کیا؟ اپنے الہام کو ایسی حجت بتایا؟ نہیں اور ہرگز نہیں۔ پس مرزا قادیانی کے تو دعوے ہی ان کی تکذیب کی بڑی دلیل ہیں۔ آپ کہیں ان کی مجددیت کا راگ الاپتے ہیں۔ کہیں امامت کا ذکر کرتے ہیں۔ آگے چل کر نبوت ورسالت غیر تشریعی کا حکم لگاتے ہیں، پھر ان کو فی الجملہ تشریعی بھی مانتے ہیں اس لئے کہ ان کے نہ ماننے والوں کو کافر اور باطل پر ٹھہراتے ہیں۔
ایک عالم فیصلہ کرچکا اور مارشس کے مرزائی بھی عنقریب کرلیں گے۔ مرزا قادیانی تو اپنے قول سے خود کفر کے دام میں پھنس چکے ہیں اب وہ کہاں نکل کر جاتے ہیں۔ مجددیت وامامت ونبوت کا ذکر تو بعد میں کیا جائے پہلے ان کے ہوا خواہ ان کو کفر کے گڑھے سے تو نکالیں، اگر نکال سکتے ہیں۔ باقی آئندہ۔ (عبدالعلیم الصدیقی القادری)
نوٹ… قادیانی مبلغ حافظ صاحب نے اپنے فرقے کو حق پر ثابت کرنے کے لئے یہ آیت لکھی ہے:’’ قل ہذہ سبیلی ادعوا الی اﷲ علیٰ بصیرۃ انا ومن اتبعنی‘‘ اور اس آیت کا یہ ترجمہ کیا ہے۔ اے محمد ﷺ! تو اعلان کردے کہ میرا اور میرے صحابہ کا طریقہ یہ ہے کہ ہم سب علیٰ بصیرت تبلیغ کا کام کرتے ہیں۔ قادیانی نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لئے آیت کے معنی میں تحریف کی اور من اتبعنی کا ترجمہ (میرے صحابہ) کیا باوجود یہ کہ اس کے صاف معنی یہ تھے کہ جس نے میرا اتباع کیا اس میں صحابہ کرام بھی داخل تھے۔ تابعین بھی تبع تابعین بھی، قیامت تک آنے والے تمام مسلمان فرمانبرداران رسولﷺ بھی۔ مگر قادیانی مبلغ نے دیکھا کہ صحیح