ظفر محمد، مولوی جلال الدین شمس وغیرہ وغیرہ۔ مقدسین قادیان کی گفتار کردار ومعاشرت کو بخوبی وبغور مطالعہ کرنے کے بعد اس نتیجہ پہ پہنچا کہ یہ گروہ اسلام سے کوسوں دور ہے اور یہ فرقہ مذہبی فرقہ نہیں بلکہ مذہب کی آڑ میں سیاسی اور اقتصادی تاجروں کی ایک کمپنی ہے۔ جو بہشت قادیان کی تجارت کرتی ہے اور یہ لوگ اس کے ڈائریکٹر اور شیر ہولڈر ہیں۔ جن کو اسلام سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔ ان لوگوں کا اخلاقی اور معاشرتی سلوک قادیان کے قریباً اڑھائی ہزار اہل سنت والجماعت مسلمان باشندوں سے نہایت متعصابہ تھا۔ یہ لوگ مقدمہ باز تھے اور دنیا جانتی ہے کہ کچہریوں میں آئے دن مقدمہ بازی کرنے والوں کی اخلاقی حالت کیسی ہوتی ہے۔ باوجود ان کی ناقابل برداشت تکلیفیں سہنے کے جب ۱۹۴۷ء میں ہندوؤں، سکھوں نے قادیان کو گھیر رکھا تھا تو بھی قادیان کے اہل سنت والجماعت فرقہ نے اسلامی نمونہ کے مطابق فراخدلی سے ان کی حفاظت کی۔ مگر اس نازک وقت پر آشوب زمانہ میں میاں محمود احمد خلیفہ قادیان سب سے پہلے موٹر کار کے پردوں میں بیٹھ کر لوگوں کو دھوکہ اور فریب دے کر نکل آئے اور مرزائی حضرات سرکاری ٹرکوں پر سوار ہوکر پاکستان پہنچ گئے اور غریب قادیان اور اردگرد کے مسلمانوں کو پیدل چل کر قافلہ بنا کر پاکستان آنا پڑا اور اس طرح فرقہ احمدیہ کی روحانیت کا بھانڈا جو دھامل بلڈنگ میکلوڈ روڈ لاہور کے عین چوراہے میں پھوٹ گیا۔ اب یہ گروہ الاٹ منٹوں پر چھاپہ مار کر ربوہ کو مرکز بنا کر اپنے مخصوص پروگرام کی تکمیل کے لئے مختلف تدابیر تبلیغ کی آڑ میں سوچ رہا ہے اور اپنے رہن شدہ متروکہ قادیان کے حصول کی خاطر اپنی من گھڑت پیش گوئیاں کر رہا ہے۔ اﷲتعالیٰ مسلمان قوم اور سلطنت پاکستان کو ان کے منصوبوں سے اپنے خاص فضل وکرم سے بچائے۔ آمین ثم آمین!
خواجہ عبدالحمید بٹ لودھراں ملتان
یکم؍جنوری ۱۹۵۲ء
غور طلب بات
روس میں نقلی سٹالن، جرمنی میں مصنوعی ہٹلر، برطانیہ میں ظلی چرچل، اٹلی میں غیرتشریعی موسولینی، ترکی میں فرضی وقیاسی اتاترک، امریکہ میں جعلی ٹرومین کے فرامین کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ تو ایک اسلامی ملک یعنی پاکستان میں فرضی اور مصنوعی پیغمبر ومسیح موعود کی متوازی نبوت کے پروپیگنڈہ کی اجازت نہیں ہونی چاہئے۔