ہیں۔ یا وہ بہائیوں کی تقلید کریں یا پھر ختم نبوت کی تاویلوں کو چھوڑ کر اس اصول کو پورے مفہوم کے ساتھ قبول کر لیں۔ ان کی جدید تاویلیں محض اس غرض سے ہیں کہ ان کا شمار حلقہ اسلام میں ہو، تاکہ انہیں سیاسی فوائد پہنچ سکیں۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۶،۱۳۷)
قادیانیوں کو سیاسی طور پر مسلمانوں سے الگ کیا جائے
’’ہمیں قادیانیوں کی حکمت عملی اور دنیائے اسلام کے متعلق ان کے رویہ (گذشتہ) کو فراموش نہیں کرنا چاہئے۔ بانی تحریک احمدیہ نے اپنے مقلدین کو ملت اسلامیہ سے میل جول رکھنے سے اجتناب کا حکم دیا ہے۔ علاوہ بریں ان کا بنیادی اصولوں سے انکار اپنی جماعت کا نیا نام مسلمانوں کی قیام کار سے قطع تعلق، نکاح وغیرہ کے معاملات میں مسلمانوں سے بائیکاٹ اور ان سے بڑھ کر یہ اعلان کہ دنیائے اسلام کافر ہے۔ یہ تمام امور قادیانیوں کی علیحدگی پر دال ہیں… اس امر کو سمجھنے کے لئے کسی خاص ذہانت، غوروفکر کی ضرورت نہیں۔ جب قادیانی مذہبی معاشرتی معاملات میں علیحدگی کی پالیسی اختیار کرتے ہیں تو پھر وہ سیاسی طور پر مسلمانوں میں شامل رہنے کے لئے کیوں مضطرب ہیں۔ علاوہ سرکاری ملازمتوں کے فوائد کے ان کی موجودہ آبادی جو چھپن ہزار(۵۶۰۰۰) ہے۔ انہیں کسی اسمبلی میں ایک نشست بھی نہیں دلا سکتی… ملت اسلامیہ کو اس مطالبہ کا پورا حق ہے کہ قادیانیوں کو علیحدہ کر دیا جائے۔‘‘ (حرف اقبال ص۱۳۷،۱۳۸)
جاذب توجہ خیالات
’’مرزائیت کے بارے میں حضرت علامہ اقبالؒ کے خیالات کی اشاعت خصوصیت کے ساتھ جاذب توجہ ہے۔ ان خیالات کے متعلق نہیں کہا جاسکتا کہ علامہ موصوف نے کسی ہنگامی جذبہ کے ماتحت ان کا اظہار فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی رائے گرامی برسوں کے عمیق مطالعہ کا نچوڑ ہے۔‘‘
(شیخ فیض محمد ایڈووکیٹ سابق سپیکر پنجاب اسمبلی لاہور، مندرجہ اخبار تنظیم اہل سنت لاہور مرزاغلام احمد نمبر)فتنہ کی بنیاد
’’مرزاقادیانی نے یہ بیان کر کے کہ نبوت قیامت تک جاری ہے۔ اسلام میں ایک فتنہ کی بنیاد ڈالی ہے اور ناممکن ہے کہ اس کے بعد کوئی شخص دعوت نبوت کرے اور ان کی کارگزاری کو بھی ملیامیٹ کر دے۔ اس طرح مذہب (اسلام) سے امان اٹھ جائے گی اور اس کے کہ وہ