دراصل یہ ایک حقیقت ہے کہ نئی نئی تجویزوں کے پٹاخے چھوڑنے کے علاوہ آج تک سلامتی کونسل نے کیا ہی کیا ہے؟ اور کرے گی کیا؟ بہت زوروں پر آئیے گی تو ایک کمیشن کی ناکامی پر دوسرا کمیشن بھیج دے گی۔ ڈاکٹر گراہم کے بعد کسی ڈاکٹر پٹاہم کو بھیج دے گی یا کوئی نمائندہ کشمیر مقرر کر دے گی۔ اگر مسئلہ کشمیر سلامتی کونسل کی تربیت گاہ اطفال میں اسی طرح جھولا جھولتا رہا تو اس کا فیصلہ اس وقت تک نہ ہوسکے گا۔ جب تک قیامت ہی نہ آجائے۔ لہٰذا قیامت تک سلامتی کونسل کے فیصلے کی امید نہیں۔ بھارتی دیو کے دماغ میں ہٹ دھرمی کا جوکیڑا گھس گیا ہے۔ اس کے نکلانے کے لئے سخت تدبر کی ضرورت ہے۔ اب رہا سلامتی کونسل کی نئی تجویز اور ڈاکٹر گراہم کی رپورٹ کا سوال تو اس کے متعلق کیا عرض کریں۔ جہاں آج سے پہلے وہ لمبی چوڑی بحثوں اور تجاویزوں سے طلسم ہوشربا کے کئی دفتر مرتب کر چکی ہے۔ وہاں ایک دفتر اور سہی۔ نتیجہ وہی ہوگا ڈھاک کے تین پات۔ بھارت تو گنیش جی مہاراج کی سونڈیا ہنومان جیکی دم کے برابر اس لمبی تجویز پڑھنے کی تکلیف سوئی کے ناکے کے برابر بھی گوارا نہ کرے گا اور نہ ہی اپنی راشٹریہ سینا کو پاکستان کی سرحد سے ہٹائے گا۔ اس کی بہت بڑی کرپایہ ہوگی کہ اس دفتر بے معنی کو پھاڑ کر حقارت کے ساتھ ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کی بجائے نئی دہلی میں بھولا رام اینڈ سنز شراب فروشاں کی دکان کے سامنے سفارتی اعزاز کے ساتھ دفن کرادے اور پاکستان کے داڑھی مونچھ والے نئی تجویز کو جھنجھنا بجا کر خوش ہوں گے کہ وہ مارا سلامتی کونسل نے بھارت کی پیشانی پر بے ایمانی اور ہٹ دھرمی کی نئی مہر لگادی اور چوہدری محمد ظفر اﷲ خان صاحب نیویارک کے آرام گھر میں فتح کے نقارے پرچوٹ لگا کر اعلان کریں گے۔ ’’ہم نے دنیا کے سامنے بھارت کو بے نقاب کر دیا اور بس اﷲ اﷲ خیر سلا۔‘‘
اس وقت ضرورت عمل کی ہے۔ بحثوں اور اعلانوں کی نہیں۔ امریکہ اور برطانیہ دونوں حقیقت میں بھارت ماتا کو ناراض کرنا نہیں چاہتے۔ کیونکہ شریمتی وجے لکشمی اپنا پراچین سمبندھ جو کہ زمانہ رامائن سے چلا آتا ہے۔ امریکہ سے جوڑ چکی ہے اور ساتھ ہی پاکستان کو بھی ہاتھ سے چھوڑنا نہیں چاہتے۔ مگر اینگلو امریکن بلاک کو اب یاد رہنا چاہئے کہ اب پاکستان زیادہ دیر تک ایسی طفل تسلیوں اور لارے لپوں میں نہیں رہ سکتا۔ کشمیر پاکستان کا حصہ ہے اور اس کے جسم کا ایک انگ ہے۔ جب تک یہ جسم سے جدا ہے کوئی بھی پاکستانی چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔‘‘
(ڈیلی بزنس رپورٹ لائل پور، مورخہ ۱۸؍اپریل ۱۹۵۲ئ)