کرنا چاہتا۔ کیونکہ یہ سوال ابھی ڈاکٹر گراہم کے زیرغور ہے۔ تاہم میں ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ حکومت پاکستان اس مسئلہ کو پرامن ذرائع سے حل کرانے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھے گی۔ اگر پرامن ذرائع ناکام رہے تو حکومت پاکستان کیا رستہ اختیار کرے گی؟ اس کے جواب کا انحصار حالات پر ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت پاکستان پرامن ذرائع کو ناکام کب خیال کرے گی؟ کیا اس وقت جب غلام کشمیر کا نام نہاد دوستور ساز اسمبلی الحاق کے بارے میں اپنا فیصلہ صادر کرچکی ہوگی؟ جب بھارت پورے کشمیر کو ہڑپ کر چکا ہوگا؟ جب پاکستان کو اچانک ایک دن یہ محسوس ہوگا کہ وہ بین الاقوامی سیاست کے میدان میں بے یارومددگار رہ گیا ہے اور پوری اقوام متحدہ میں اس کا ایک بھی ہمنوا نہیں رہا؟ اگر نہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کیا اسے معلوم ہے کہ:
۱… اقوام متحدہ کو کشمیر کے مسئلہ سے کوئی دلچسپی نہیں رہی اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ اوّل تو جب بھارت نے ڈیورز پلان کو مسترد کر دیا تو ڈاکٹر گراہم نے کوئی متبادل فارمولا پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ دوسرے جن اقوام کا U.N.O پر قبضہ ہے۔ ان کی دلچسپی کا مرکز جنوب مشرقی ایشیاء سے بدل کر اب شرق الاوسط اور یورپ قرار پاچکا ہے۔ اس لئے وہ کشمیر کے مسئلہ کو تیسری جنگ کے آغاز تک بہ آسانی ٹال سکتے ہیں۔
۲… بھارت نے اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ریاست جموں وکشمیر میں اپنے پاؤں پہلے سے بھی زیادہ مضبوطی کے ساتھ جمانا شروع کر دئیے ہیں۔ چنانچہ شیخ عبداﷲ کی نام نہاد دستور ساز اسمبلی اسی مقصد کے تحت مصروف عمل ہے۔ مانا کہ اب تک پوزیشن یہ ہے کہ غلام کشمیر کی نام نہاد دستوریہ کا یہ فیصلہ سیکورٹی کونسل کی کاروائی پر اثر انداز نہیں ہوگا۔ لیکن کیا یہ ممکن نہیں ہے کہ بین الاقوامی تعلقات میں یکدم تغیر رونما ہو جائے۔ جس کے بعد U.N.O کے لئے یہ ممکن ہی نہ رہے کہ وہ نام نہاد دستوریہ کے فیصلہ کو مسترد کر سکے۔
۳… کراچی کے سیاسی حلقوں نے یہ شبہ ظاہر کیا ہے کہ ڈاکٹر گراہم کے مشن کی ناکامی میں کوئی پراسرار ہاتھ کام کر رہا ہے۔ چنانچہ اب یہ خیال عام ہوچکا ہے کہ بھارت اور امریکہ میں کوئی خفیہ معاہدہ طے پایا ہے۔ جس کے نتیجہ میں امریکہ بھارتی مؤقف کی تائید کرنے پر مجبور ہے۔ ممکن ہے اس خیال کی تردید بھی ہوجائے۔ تاہم اگر اس نوازش پیہم کو دیکھا جائے۔ جس کی بارش امریکہ کی جانب سے بھارت پر ہورہی ہے تو یہ قیاس آرائی بلاوجہ بھی معلوم نہیں ہوتی۔