پوزیشن پاکستان میں ایک اچھوت کی ہوجاوے گی۔ جس طرح قبل تقسیم ہندو اکثریت کے سامنے مسلمانوں کی کوئی پوزیشن نہیں تھی۔ اسی طرح مسلم اکثریت کے سامنے ہماری پوزیشن بالکل گرجاوے گی۔ دفتروں، بازاروں اور پبلک اجتماعات میں ہماری کوئی عزت نہ رہے گی۔ دین کی خاطر ہم تو یہ بے عزتی برداشت کر لیں گے۔ مگر ہماری اولاد یہ بوجھ نہیں اٹھا سکے گی۔ سکولوں میں لڑکوں کی نظر میں ہمارے بچے حقیر سمجھے جاویں گے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنی کمزوری کی وجہ سے اپنے آپ کو احمدی کہلانے سے انکار کر دیں اور اس طرح ہماری آئندہ نسل بھی احمدیت سے خارج ہو جاوے۔
علاوہ ازیں علماء سؤ جب دیکھیں گے کہ حکومت نے ہماری ایک بات مان لی تو پھر نئے پر پرزے نکالیں گے۔ ہمارے مردوں کو قبرستان میں دفن نہ کرنے، ہماری دکانوں پر پکٹنگ کرنے غرضیکہ مزید کئی حربے ہمیں نیست ونابود کرنے کے لئے استعمال کریں گے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیں ذمی قرار دیں۔ یا ہم سے عام مسلمانوں کا بائیکاٹ کرادیں۔ اگر ہم نے خاموشی اختیار کر لی تو نتیجہ بہت خراب نکلے گا۔ جماعت کے بزرگوں کو اس موقع پر سوچنا چاہئے کہ ہم قانونی طور پر کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ اگر کچھ نہیں کرسکتے ہیں تو پھر جماعت کو ہدایت کی جاوے کہ پچھلی رات کو خداتعالیٰ کی جناب میں فریاد کریں۔ کیونکہ آخری عدالت وہی ہے۔ یہ فتنہ گذشتہ فتنوں سے عظیم ہے۔ اس لئے ہمیں زیادہ کوشش کرنی چاہئے ؎
اندریں وقت مصیبت چارۂ ما بیکساں
جز دعائے بامداد وگریہ اسحار نیست
پوسٹر جو مرکزی دفتر سے چسپاں کرنے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ وہ بھی ہمارا ملازم مار کے خوف سے دن کے وقت لگانے کی جرأت نہیں کررہا۔ البتہ رات کو غالباً لگا سکے گا۔ اس خط کی ایک نقل حضرت امیر قوم، خان بہادر غلام ربانی صاحب، حافظ محمد حسن صاحب وکیل گجرات، خواجہ نذیر احمد صاحب لاہور، مولوی آفتاب الدین صاحب لاہور، مولانا احمد یار صاحب لاہور، مولانا عبدالحق صاحب ودیارتھی، مرزامظفر بیگ صاحب ساطع مبلغ اسلام لائل پور، خان بہادر ڈاکٹر سعید احمد صاحب ڈاڈر، مولوی دوست محمد صاحب ایڈیٹر اخبار پیغام صلح کی خدمت میں بھی ارسال کی گئی ہے۔
خاکسار: عبدالعزیز خان
(روزنامہ زمیندار لاہور مورخہ ۲۶؍جولائی ۱۹۵۲ئ)