بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں اب میرے رازداں اور بھی ہیں
سیاسیات میں میری عمر قریباً تین برس ہوگی۔ جب مجلس احرار نے استیصال مرزائیت کا عملی بیڑا اٹھایا۔ یہ واقعہ ۱۹۳۱ء کا ہے۔ ان دنوں مرزابشیرالدین محمود قادیانی کشمیر کمیٹی کے صدر اور عبدالرحیم درد جنرل سیکرٹری منتخب ہوئے تھے۔ ان دنوں مرزائیوں کا کشمیری مسلمانوں کے ایمان اور وطن کا لیڈر بن جانے کے دوسرے معنی یہ تھے کہ پنجاب کے مسلمانوں نے کشمیری مسلمانوں کو اپنے ہاتھوں کفر کی آغوش میں پھینک دیا تھا۔ ایک طرف اگر قادیانی وہاں کے سادہ مزاج کشمیریوں کے ایمان پر قبضہ جمانے کی سعی میں کامیاب ہوجاتے تو دوسری طرف انگریز کا گلگت پر بلاشرکت غیرے قابض ہو جانا یقینی تھا۔ چنانچہ یہی وہ سکیم تھی جس کو بروئے کار لانے کے لئے انگریز شاطر نے پنجاب کے ٹوڈی مسلمان کو بطور مہرے کے آگے بڑھایا اور جیسے ہی کشمیر کی گلپوش وادیوں سے ڈوگرہ شاہی کی سنگینوں سے وہاں کے مظلوم مسلمانوں کے تڑپنے اور کراہنے کی آواز بلند ہوئی۔ پنجاب کا عیش پسند طبقہ آگے بڑھا اور انہوں نے انگریز کے اشارے پر قادیان کے خلیفہ بشیرالدین محمود قادیانی کو کشمیر کمیٹی کا صدر بنادیا۔
رہنمایان احرار کی دور رس نگاہوں نے اس سارے نقشے کو دیکھتے اور سمجھتے ہی ڈاکٹر اقبال مرحوم سے ملاقات کی۔ اقبال مشرق ومغرب کے علوم سے آراستہ تھے۔ وہ چوہدری افضل حق کی بات کو سمجھ گئے۔ ان دنوں حضرت انور شاہ صاحبؒ دیوبند سے پنجاب تشریف لائے ہوئے تھے۔ اقبال مرحوم کو ان سے عقیدت تھی۔ حضرت کے سمجھانے پر اقبال مرحوم نے بشیرالدین محمود قادیانی کو تار کے ذریعہ کشمیرکمیٹی کی صدارت سے مستعفی ہونے کا حکم دیا۔
یہ پہلی فتح تھی جو مسئلہ ختم نبوت کے سلسلہ میں مجلس احرار کو نصیب ہوئی۔ پھر اس تحریک کو جو فروغ ہوا۔ ڈاکٹر اقبالؒ نے جس تندہی کے ساتھ مرزائیت کے خلاف قلمی جہاد کیا۔ تاریخ کے اوراق آج بھی انہیں اپنے دامن میں لئے بیٹھے ہیں۔