اس واضح صفائی کے بعد اگر ایک سلطنت میں کسی صوبے کی پارٹی یا فرد کو ایک نعرہ لگانے کی سزا یہ ہے کہ ان کے ساتھی چارسدہ کی مسجد میں گولیوں سے مارے جائیں، معصوم بچوں، کو بے رحمی سے قتل کیا جائے۔ عورتیں بے عزت کی جائیں۔ جیلوں میں ڈال کر ان کی صحت تباہ کر دی جائے اور چار برس تک ان پر قسم قسم کے تشدد روا رکھنے کے بعد ان سے یہ بھی نہ پوچھا جائے کہ تمہارا جرم کیا تھا اور پارٹی بھی وہ جس نے عمر بھر انگریزی نظام سلطنت کے خلاف لڑائی لڑ کر اس ملک کو غلامی سے نجات دلانے میں سب کچھ تباہ وبرباد کر دیا ہو۔ ان کو آپ مجرم قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیں۔ ان کی تمام جائیداد ضبط کر لیں اور ان کے بال بچوں کو بھی آپ معاف نہ فرماویں۔ مگر ایک پارٹی جس کا لیڈر مرزابشیرالدین محمود ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہمیں کم ازکم ایک صوبہ تو اپنے لئے ایسا بنالینا چاہئے جو احمدی سٹیٹ کہلا سکے۔
یہ احمدی سٹیٹ بنانے کا اشارہ بلوچستان کی طرف ہے اور یہ میٹنگ جس میں مجوزہ تجویز لائی گئی۔ کوئٹہ میں منعقد ہوئی۔ اس میٹنگ میں ریلوے کے ذمہ دار مرزائی آفیسر اور خود وزیر خارجہ اور بشیرالدین محمود نے شرکت کی۔ مرزائیوں کا یہ ٹولہ تمام عمر فرنگی راج کا نہ صرف معاون ہی رہا۔ بلکہ انہیں اولوالامر کہا۔ اسلامی ممالک کو تاخت وتاراج کرنے کے لئے اپنی تمام قوتیں صرف کر دیں۔ جاسوسانہ طور پر مسلمان ممالک میں دن رات انگریزوں کا کام کرتے رہے اور آج پاکستان میں بیٹھ کر ہندوستان برطانیہ اور امریکہ کے حق میں فضا صاف کر رہے ہیں۔ کشمیر میں جو کھیل مرزائی کھیل رہا ہے۔ اس کا اظہار پہلے ہوچکا ہے۔
حکومت کی کلیدی آسامیوں پر بیٹھ کر مرزائی مسلمان آفیسروں کے خلاف رات دن ریشہ دوانیاں کر رہے ہیں۔ لیکن مندرجہ بالا واقعات کی موجودگی میں گورنمنٹ پاکستان نے کوئی آئینی اقدام مرزائیوں کے خلاف کیا؟ اگر عبدالغفار خان اور اس کی پارٹی تمام عمر خدمت گزار رہنے کے بعد پٹھانستان کا نعرہ لگا کر چاربرس سے حکومت وقت کی نظروں میں مجرم ہے تو بشیرالدین محمود ظفر اﷲ خان اور ان کی تمام پارٹی جو عمر بھر انگریزوں کے جاسوس رہے۔ اور آج بھی پاکستان میں بیٹھ کر اکھنڈ ہندوستان کا نعرہ بلند کر رہے ہیں۔ نیز احمدی سٹیٹ بنانے کی تجویزیں سوچتے ہیں۔ پاکستان گورنمنٹ کی نظر میں کوئی مجرم نہیں؟
ایک ملک، ایک سلطنت اور ایک ہی پارٹی کی حکومت میں یہ دو قانون کیوں ہیں؟ کیا میرے اس سوال کا جواب دیا جائے گا۔ جانباز مرزا!
لائل پور، مورخہ ۳؍جون ۱۹۵۲ء