میرپور کے مقدمات کی پیروی کر رہے تھے۔ حال میں اپنے بیان میں واضح طور پر اس خیال کا اظہار کر دیا۔ انہوں نے صاف طور پر کہا کہ وہ کسی کشمیر کمیٹی کو نہیں مانتے اور جو کچھ انہوں نے یا ان کے ساتھیوں نے اس ضمن میں کیا وہ ان کے امیر کے حکم کی تعمیل تھی۔ مجھے اعتراف ہے کہ میں نے ان کے اس بیان سے اندازہ لگایا کہ تمام احمدی حضرات کا یہی خیال ہوگا۔ اس طرح میرے نزدیک کشمیر کمیٹی کا مستقبل مشکوک ہوگیا۔‘‘ (حرف اقبال ص۲۲۱،۲۲۲، مورخہ ۲۰؍جون ۱۹۳۳ئ)
اس بیان کے بعد علامہ اقبال کشمیرکمیٹی سے مستعفی ہوگئے۔ انہی دنوں ہندوستان کی تمام ریاستیں کشمیر کی دیکھا دیکھی انقلاب زندہ باد کے نعروں سے شخصی حکمرانوں کو پریشان کر رہی تھیں اور دوسری طرف کانگریس نے سارے ملک کو انگریز کے خلاف شعلہ جوالہ بنادیا تھا۔ ایسے ماحول میں صرف ریاستی حکمران ہی ایک ایسا طبقہ تھا جو برطانوی سنگھاسن کو کندھا دے کر بچا سکتا تھا۔ پھر انگریز ان کے خلاف کیوں کر بغاوت کے آثار برداشت کرتا۔ اس نے اس تحریک کا رخ پلٹنے کی غرض سے اپنے سروں اور خان بہادروں کے ذریعہ اوّل اوّل ملک میں فرقہ دارانہ فساد کرائے جس سے ملک کی تمام سیاسی فضا مکدر ہوکر رہ گئی۔ محبت نفرت میں بدل گئی۔ ملک کا مستقبل تاریک ہوگیا۔ اتنے میں ہٹلر کا ہلکا سا سایہ جرمنی کے ایک کونہ سے نمودار ہوا۔ جس سے سامراجی قوتیں خوفزدہ ہوگئیں۔ دوسری جنگ عظیم کے آثار اور زیادہ نمایاں ہوگئے۔ ہندوستان کا ہندو مستقبل سے غافل نہیں تھا۔ وہ یورپ کے مصائب میں اپنے ملک کی نجات خیال کرتا تھا۔ اسے ہندوستان کے مسلمانوں سے ان کے گذشتہ رویہ کے پیش نظر سیاسی سمجھوتہ کی امید نہیں تھی اور نہ ہی اسے مسلمان پر یقین تھا۔ وہ بڑی دور کی کوڑی لایا اور بجائے مسلمانوں کے اب اس نے مرزائیوں کو اپنے مدعا کے لئے بہتر سمجھا۔ جس کا اندازہ انہی دنوں کے اخبار بندے ماترم میں ڈاکٹر شنکرداس مہرابی، بی۔سی۔ایس۔سی، ایم۔بی۔بی۔ایس کے مندرجہ ذیل مضمون سے ہوتا ہے۔
’’سب سے اہم سوال جو اس وقت ملک کے سامنے درپیش ہے وہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر کس طرح قومیت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ کبھی ان کے ساتھ سودے معاہدے پیکٹ کئے جاتے ہیں۔ کبھی لالچ دے کر ساتھ ملانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کبھی ان کے مذہبی معاملات کو سیاست کا جزو بنا کر پولیٹکل اتحاد کی کوشش کی جاتی ہے۔ مگر کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔ ہندوستانی مسلمان اپنے آپ کو ایک الگ قوم تصور کئے بیٹھے ہیں اور وہ دن رات عرب ہی کے گن گاتے ہیں۔ اگر ان کا بس چلے تو وہ ہندوستان کو عرب کا نام دے دیں۔