بہر سر ٹپکتے رہے باپ بھائی
ملی موت سے پر نہ اس کو رہائی
نہ ہاتھ آیا مرزا کو جزرنج و حسرت
ملی خاک میں اس کی ساری نبوت
مرا نظم لکھنے سے یہ مدعا تھاکہ دجال جو قادیان میں ہوا تھا
غضب آہ! ظالم نے کیسا کیا تھا؟
کہ حضرت محمدؐ سے افضل بنا تھا
میں سب مکر و فن اس کے تم کو بتاؤں
جو چالیں چلی ہیں وہ سب کہہ سناؤں
ہوا مختصر حال اس کا بیاں سب
سنائی تمہیں کفر کی داستاں سب
یہ مشتے نمونہ ہے ورنہ کہاں سب
سمائے نہ دفتر میں گرہو بیاں سب
بکی عمر بھر ایسی بکواس اس نے
کہ دین کا کیا ستیاناس اسنے
لگاتا تھا مسلم کے ہر آن وہ نیش
کبھی دیکھتا ہی نہ تھا کچھ پس و پیش
بچا کوئی عالم نہ صوفی نہ درویش
کہ مرزا نے اس کا کیا ہو نہ دل ریش
بہت عالموں کا دل اس نے دکھایا
بہت پیشوایان دیں کو ستایا
محمدؐ ہیں سچے نبی اور مرسل
ہوا ہے نہ ہوگا کوئی ان سے افضل
جو ہم رتبہ ان کا بنے کوئی اجہل
نہایت کمینہ ہے وہ اور ارذل
میں ایسے کمینہ سے رکھتا ہوں نفرت
ہمیشہ کیا کرتا ہوں اس پر لعنت
ذرا آپ انصاف کیجئے خدارانبیؐ کی ہو توہین کیسے گوارا؟
ہے ان کی شفاعت کو ہم کو سہارا
اگر وہ راضی باشد غمے نیست مارا؟
کیا ہو گا دل جس نے حضرت کا ناشاد
کرے گا خدا اس کو عقبیٰ میں برباد
نبی کی رضا کا طلب گار ہوں میں
دل و جان سے اس کا خریدار ہوں میں
شراب محبت سرشار ہوں میں
جو ہو بے ادب اس سے بیزار ہوں میں
ہے عشق محمد مرے دل میں بے حد
سراپا بنا ہوں میں مشتاق احمد
جو احباب ہیں کل اصاغر اکابر
مرا حال ان پر ہے ظاہر وباہر
کہ شعر و سخن میں نہیں ہوں میں ماہر
نہ منشی ہوں اور نہ کوئی شاعر
نہ عالم نہ فاضل نہ پیر و ولی ہوں
میں اک طالب علم چرتھا ولی ہوں
ختم شد!