کا کاروبار شروع کیا تو خیال آیا کہ کتنا بے وقوف سہی مگر ایسے بدیہی البطلان دعویٰ کو کس طرح قبول کر سکتا ہے؟ اس لئے چن بسویشور ’’من کل الوجوہ اﷲ‘‘ نہ بننے بلکہ اپنے اندر خدائی صفات کے ضمن میں خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔ اﷲ جل شانہ کی ذات سے متعلق تمام انبیاء علیہم السلام نے جس عقیدہ کی تبلیغ فرمائی ہے کہ وہ ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گے۔ اس سے متعلق عوام کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر آنکھ مچولی کھیل رہے ہیں۔ ذات باری تعالیٰ کی جو تشریح کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: ’’لم یکن شیئاً مذکوراً ظاہر کرتا ہے کہ ایک وقت انسان کا ایسا بھی گزرا ہے کہ اس کا بیان انسانی طاقت سے باہر ہے۔ یعنی ذات واجب الوجود احدیت کے مقام پر تھا۔ جب اس ذات مذکور نے اپنی ذات واجب الوجوب سے مل کر شہادت میں آنے کا ارادہ کیا۔ عقل کل میں آکر ٹھہری۔ عقل کل سے عالم ارواح کا روپ لیا۔ پھر وہی ذات عالم امثال میں آئی۔ پھر عالم اجسام یا شہادت کا جامہ پہنا۔ رحمتہ اللعالمین کی صورت اختیار کی۔‘‘ (معراج المؤمنین ص۴۱)
یہ فلسفہ یونان کی فکری نکتہ آفرینیاں ہیں۔ جن کا اسلام کے ساتھ جوڑ ملانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ گویا اﷲتعالیٰ جس طرح قدیم ہیں۔ عقل کل بھی ایسی ہی قدیم ہے اور اﷲتعالیٰ عالم شہادت یعنی چن بسویشور کی صورت میں عقل کل کے محتاج ہوئے۔
آخرین کا سردار
مرزاغلام احمد قادیانی کو آخری خلیفہ مانتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اسلام کے آخری خلیفہ نے آخری فرقہ بنایا۔ اس طرح دین قیم کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے… چونکہ پھل اپنی شاخوں کا مصدق ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ آخرین کا سردار چن بسویشور جملہ فرقہائے اسلام کی تصدیق کرنے والا ہونا ضروری ہے۔ جس کو اوّلین کے سردار حضرت محمد مصطفیٰﷺ نے آخری فرقہ کے سردار مسیح ناصری کی تصدیق کرنے پر آپ کی قوم نے آپ پر تالیاں بجائی تھیں اور کہا تھا کہ یہ عیسائی ہوگیا ہے۔ اسی طرح آخرین کے سردار کے لئے بھی یہ ضروری تھا کہ وہ آخری فرقہ کے سردار مسیح موعود کی تصدیق کرنے پر اس کی قوم تالیاں بجائے اور کہے کہ یہ احمدی (قادیانی) ہوگیا ہے۔‘‘
(دعوۃ الیٰ اﷲ ص۶)
استدلال کا یہ بہترین گرشاید کسی اور کو معلوم نہیں ہوگا کہ خود واقعات بناکر کسی کی طرف منسوب کریں۔ پھر وجہ نسبت کی تعیین کریں۔ اپنے خود ساختہ علم کلام سے خود ساختہ واقعات کی روشنی میں اپنے دعاوی پر استدلال کریں۔ بس وہی بات ہے کہ ؎
خود کوزۂ وخود کوزہ گرو خود گل کوزہ