سے حضورؐ کی طرف مخاطبت ہے اور یہ مخاطبت کسی غائب کی طرف نہیں ہے۔ آنکھوں سے دیکھنے کی حجت پیش کرتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ جملے لکھتے وقت بیچارے مصنف کی عقل کا جنازہ اٹھ چکا تھا۔ یہ بھی گمان گذرتا ہے کہ کچھ جام معرفت پی لیا ہوگا۔ تبہی تو ذہن مبارک ایسی بھول بھلیوں کا شکار ہے۔
حضور! فرمائیے کہ بعثت اوّل اور بعثت ثانی کے درمیان جو تیرہ سو سال آپ بھی مانتے ہیں۔ اس میں کیا مسلمان نماز کے قعدہ میں ’’ایہا النبی‘‘ نہیں کہتے تھے؟ اب فرمائیے کہ اس زمانے میں مخاطبت نے آنکھوں سے دیکھنے کی کیا حجت پیش کی اور اب چن بسویشور کے جہنم رسید ہوکر طوفانی دورے پر جانے کے بعد تمہاری آنکھوں کے سامنے مخاطب کہاں موجود ہے اور جس زمانے میں یہ خدا کے غضب کا مظہر چن بسویشور اپنی تمام نحوستوں سمیت آصف نگر حیدرآباد دکن میں موجود تھا۔ اس وقت باقی دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ’’ایہا النبی‘‘ نے کون سی حجت پیش کی۔ یہ سب سوچ کر اس سے استدلال کرتے۔ ایسے ابوالکلام کو اور کیا کہا جائے۔ سوائے اس کے کہ ؎
اب اگر کچھ شرم ہے تو ڈوب کر مر جائیں وہ
افتراء پردازی و بہتان سے باز آئیں وہ
مجھے باربار یہ خیال آتا ہے کہ سادہ دل بندے ایسے بوسیدہ جال میں کس طرح پھنس گئے کہ اگر ذرا سی پھونک ماریں تو ان کے جال کے پرخچے اڑ جائیں ؎
مسلمانوں! ذرا سوچو تو دل میں
پھنسے ہو کس طرح تم آب وگل میں
یہ میرے آقائے نامدار حضرت محمد مصطفیٰﷺ پر کتنا بڑا بہتان ہے کہ آپ کی دعاء ’’رب ادخلنی مدخل صدق‘‘ میں صدق سے مراد صدیق دیندار چن بسویشور ہے۔ خدارا کم ازکم اپنی ہی جان پر رحم کرتے۔ بہتان طرازی کی ایسی مثال ہمیں تو کہیں نظر نہیں آئی۔ دیندار انجمن کا کوئی بھی فرد حضورﷺ سے اس روایت کو ثابت کر کے دکھادے۔و رنہ اس دریدہ دہنی سے توبہ کریں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ قیامت کے روز میرے آقا کے سامنے مجرم کی حیثیت سے کھڑا کر دیا جائے اور حضورﷺ کی یہ حدیث سنا کر جہنم کے انگاروں میں جھلسنے کے لئے بھیج دیا جائے۔