نہیں ہوتی۔ جیسا کہ ڈاکٹر شاہ نواز خان صاحب احمدی اسسٹنٹ سرجن فرماتے ہیں۔ ’’ایک مدعی الہام کے متعلق اگر یہ ثابت ہو جائے کہ اس کو ہسٹریا، مالیخولیا یا مرگی کا مرض تھا تو اس کے دعویٰ کی تردید کے لئے کسی اور ضرب کی ضرورت نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ ایک ایسی چوٹ ہے جو اس کی صداقت کی عمارت کو بیخ وبن سے اکھیڑ دیتی ہے۔‘‘ (ریویو اگست ۱۹۲۶ئ، ص۶،۷)
برادران! آپ کو نبی کے پرکھنے کی کسوٹی تو معلوم ہوگئی۔ اب ہم آپ کو خود مرزقادیانی کی زبانی بتلاتے ہیں کہ مرزاقادیانی نہ تو نبی تھے، نہ مسیح موعود تھے۔ نہ مجدد نہ ولی نہ کرشن بلکہ دراصل مالیخولیا مراق کے مریض تھے۔ اس جگہ ہم مالیخولیا مراقی کے اسباب وعلامات بیان کرتے ہیں۔ تاکہ معلوم ہو جائے کہ مالیخولیا کیا چیز ہے۔ غور سے سنیں:
اسباب
۱… ’’یہ تیز سودا سے جو معدہ میں جمع ہو جاتا ہے۔ پیدا ہوتا ہے۔ اس میں ورم بارد پیدا کر دیتا ہے یا ماساریقا یا تلی یا غشاء مراق میں جمع ہو کر ورم پیدا کردیتا ہے اور اس عضو سے سیاہ بخارات اٹھ کر دماغ کی طرف چڑھتے ہیں۔‘‘ (شرح اسباب ج۱ ص۷۶)
’’یا ضعف دماغ، رنج وغم، کثرت مجامعت، حبق، کثرت محنت دماغی، زیادہ جاگنا، نہایت مشکل مسائل کے حل کرنے میں رات دن سوچتے رہنا بھی اس مرض کا سبب ہوتے ہیں۔‘‘
(مخزن حکمت طبع پنجم ج۲ ص۱۳۵۱)
علامات
’’بعض مریضوں میں یہ فساد گاہے اس حد تک پہنچ جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو غیب دان سمجھتا ہے اور بسا اوقات ہونے والے واقعات کی خبر پہلے ہی دے دیتا ہے۔‘‘
(شرح اسباب ج۱ ص۶۹)
۲… ’’اگر سپاہی ہو تو دعویٰ بادشاہی کرتا ہے۔ اگر مریض عالم ہو تو دعویٰ پیغمبری کرتا ہے اور معجزات وکرامات کرتا ہے۔ وسخن از خدائی گوئد اور لوگوں کو دعوت دیتا ہے۔‘‘
(اکسیر اعظم ج۱ ص۱۸۸)
اب ہم مرزاقادیانی کی تحریروں سے ان کے مالیخولیا، مراق، نسیان، درد سر، سوء ہضم، ذیابیطس، ہسٹریا وغیرہ کے مریض ہونے کا جواز پیش کرتے ہیں۔