آہستہ لوگوں کو حدیث پر عمل کرنے سے روکا اور قرآن مجید پر ہی عمل کرنے کی تاکید کی۔ سوائے قرآن کے کوئی چیز قابل حجت نہیں۔ بعد میں آکر حدیث کو بہت برا بھلا کہا۔ آخر کار کچھ لوگ مولوی صاحب مذکور کی آواز پر لپٹ ہی گئے۔
اب مسجد چینیانوالی کے اندر روزانہ نماز کے متعلق جھگڑا ہونے لگا۔ پہلے اہل حدیث کی جماعت ہونے لگی اور بعد مولوی صاحب کے ہم خیال لوگوں کی، مولوی صاحب کی جماعت میں سب سے بڑے رکن میاں محمد بخش چٹوتھے۔ انہوں نے مولانا ثناء اﷲ صاحب فاتح قادیان کو ایک چٹھی لکھی تھی۔ جس میں دس بیس ہزار روپیہ مولوی صاحب کو دینے کا وعدہ کیا تھا۔ بشرطیکہ مولوی صاحب اپنا مذہب چھوڑ کر اہل عیال کو لے کر ہمارے پاس آجاویں اور ہمارے مذہب کی تبلیغ کریں۔ جس کے جواب میں مولانا صاحب نے لکھا کہ میں نے یہ مذہب کسی لالچ وغیرہ کی وجہ سے قبول نہیں کیا۔ بلکہ سچا مذہب سمجھتا ہوں۔
آخرکار مولوی عبداﷲ صاحب واپس اپنے وطن میں جاکر فوت ہوگئے۔ اس کی ایک جماعت گوجرانوالہ کے اندر پیدا ہوگئی۔ ایک جماعت شہر گجرات کے اندر کھڑی ہوگئی۔ جنہوں نے نماز میں صرف تین ہی فرض بتائے۔ کچھ جماعت امرتسر کے اندر خواجہ احمد الدین نے امت مسلمہ کے نام سے قائم کی۔ امرتسر سے اس جماعت کا ایک ماہوار رسالہ البلاغ نکلتا ہے۔ اب ہم اصلی مقصد پر پہنچ گئے ہیں۔ مولوی محمد علی ایم اے امیر جماعت احمدیہ لاہور، خواجہ احمد الدین وغیرہ کا نصاریٰ کی طرح عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام باپ کے ذریعہ پیدا ہوئے اور یہی عقیدہ تھا سرسید احمد علی گڑھی کا۔ یہ شخص حضرت مسیح کی وفات کے بھی قائل ہیں۔ حالانکہ اﷲتعالیٰ اپنے پاک کلام میں ارشاد فرماتا ہے: ’’ان مثل عیسیٰ عند اﷲ کمثل آدم خلقہ من تراب ثم قال لہ کن فیکون (آل عمران:۵۹)‘‘ یعنی بیشک حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کے نزدیک سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کی مثل ہیں۔ ان کو یعنی حضرت آدم علیہ السلام کو مٹی سے بنایا،۔ پھر ان کو حکم دیا کہ موجود ہو جا۔ پس وہ یعنی حضرت آدم علیہ السلام موجود ہوگئے۔ اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ حضرت ابن مریم کا باپ کوئی نہ تھا۔ یعنی نہ خدا تھا اور نہ ہی کوئی انسان تھا۔ حضرت مریم صدیقہ کا خاوند ثابت کرنا سوائے کذب بیانی کے اور کچھ نہیں۔
۲… ’’کانا یاکلان الطعام‘‘ حضرت عیسیٰ اور ان کی والدہ محترمہ مائی مریم