پروپیگنڈا اور دوکانداری کے سوا کچھ بھی نہیں تو ڈاکٹر صاحب نے آنجہانی کے برخلاف قلم اٹھائی۔ بلکہ دعویٰ الہام سے بھی مقابلہ کیا۔ چنانچہ ڈاکٹر صاحب موصوف نے اپنا آخری الہام مرزاقادیانی کی موت کے متعلق شائع کیا۔ جس کے متعلق مرزاقادیانی کے الفاظ درج ذیل ہیں۔
’’ایسا ہی کئی دشمن مسلمانوں میں سے میرے مقابل کھڑے ہوکر ہلاک ہوئے اور ان کا نام ونشان بھی نہ رہا۔ ہاں ہاں آخری دشمن اب ایک اور پیدا ہوا ہے۔ جس کا نام عبدالحکیم خان ہے اور وہ ڈاکٹر ہے۔ ریاست پٹیالہ کا رہنے والا ہے۔ جس کا دعویٰ ہے کہ میں اس کی زندگی میں ہی ۴؍اگست ۱۹۰۸ء تک ہلاک ہو جاؤں گا اور یہ اس کی سچائی کے لئے ایک نشان ہوگا۔ یہ شخص الہام کا دعویٰ کرتا ہے اور مجھے دجال اور کافر اور کذاب قرار دیتا ہے۔ پہلے اس نے بیعت کی برابر بیس برس تک میرے مریدوں اور جماعت میں داخل رہا۔ پھر ایک نصیحت کی وجہ سے جو میں نے محض للّٰہ اس کو کی تھی مرتد ہوگیا۔ نصیحت یہ تھی کہ اس نے یہ مذہب اختیار کیا تھا کہ بغیر قبول اسلام اور پیروی آنحضرتﷺ کے نجات ہوسکتی ہے۔ گو کوئی شخص آنحضرتﷺ کے وجود کی خبر بھی رکھتا ہو۔ چونکہ یہ دعویٰ باطل تھا اور عقیدہ جمہور کے بھی برخلاف اس لئے میں نے منع کیا۔ مگر وہ باز نہ آیا۔ آخر میں نے اس کو اپنی جماعت سے خارج کر دیا۔ تب اس نے پیش گوئی کے مقابل پر مجھے خبر دی کہ وہ خود عذاب میں مبتلا کیا جاوے گا اور خدا اس کو ہلاک کر لے گا اور میں اس سے محفوظ رہوں گا۔ سو یہ وہ مقدمہ ہے جس کا فیصلہ خدا کے ہاتھ میں ہے۔ بلاشبہ یہ سچ بات ہے کہ جو شخص خداتعالیٰ کی نظر میں صادق ہے۔ خدا ضرور اس کی مدد کرے گا۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۳۲۱، خزائن ج۲۳ ص۳۳۶،۳۳۷)
اس مقابلہ کا انجام یہ ہواکہ مرزاقادیانی، ڈاکٹر صاحب کی میعاد مقررہ کے اندر ہی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو فوت ہوگئے اور اس کے بعد ڈاکٹر صاحب عرصہ تک زندہ رہے۔
ناظرین کرام
آپ کو اس کے مطالعہ سے حقیقت سے آگاہی ہوگئی ہے کہ مرزاقادیانی ازروئے قرآن مجید وحدیث نبویﷺ اور بقول خود نہ مسیح، نہ نبی، نہ مجدد تھے۔ بلکہ ایک مجنون الحواس انسان تھے۔ ان کا پروپیگنڈا محض شریف بنی نوع کو مغالطہ میں ڈالنا تھا۔ مجدد تو کجا بلکہ ہفوات مرزا سے پتہ چلتا ہے کہ آنجہانی شریف انسان بھی نہ تھے۔ ہم بوجہ مجبوری مرزاقادیانی کی پوری حقیقت واضح نہیں کر سکے۔ لہٰذا معافی کے