متضاد اور متناقض باتیں کہنے والا پاگل ہے
مرزاقادیانی لکھتے ہیں:
۱… ’’ظاہر ہے کہ ایک دل سے دو متضاد باتیں نکل نہیں سکتیں۔ کیونکہ ایسے طریق سے انسان پاگل کہلاتا ہے یا منافق۔‘‘ (ست بچن ص۳۱، خزائن ج۱۰ ص۱۴۳)
۲… ’’اس شخص کی حالت ایک مخبوط الحواس انسان کی حالت ہے۔ ایک کھلا کھلا تناقض اپنی کلام میں رکھتا ہے۔‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۸۴، خزائن ج۲۲ ص۱۹۱)
۳… ’’جھوٹے کے کلام میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔‘‘
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ۵ ص۱۱۱، خزائن ج۲۱ ص۲۷۵)
سبحان اﷲ!مرزاقادیانی نے اپنی کذب بیانی پر خود دستخط کر دئیے۔ ہمارا بھی یہی مقصد تھا کہ خداتعالیٰ سچ اور جھوٹ میں سچا فیصلہ فرمائیں۔ مرزاقادیانی نے خود اقرار کیا ہے کہ جو شخص جھوٹا ہو اس کی باتوں میں تناقض ضرور ہوتا ہے۔ مرزاقادیانی آنجہانی کی باتوں میں کس قدر تناقض ہے۔ ایک جگہ پر وید کو گمراہی سے بھرا ہوا کہتے ہیں اور دوسری جگہ پر خدا کی کلام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ غرضیکہ ہزارہا تناقض ثابت ہوتے ہیں۔ لہٰذا مرزاقادیانی بقول خود اپنے دعویٰ میں جھوٹے نکلے۔
فلاسفی اصول کے مطابق بھی وہ بات قابل اعتبار نہیں ہوتی۔ جس میں کہ تناقض ہو۔
حیرت انگیز شبہ
مرزاقادیانی کے اس قسم کے اختلافات دیکھنے والا انسان سخت متحیر ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی جیسی شخصیت کا مالک جن کی پرواز آسمان نبوت سے گذر کر عرش الوہیت پر پہنچی ہوئی ہے اور جو بخیال خود تمام کمالات واوصاف کے واحد اجارہ دار ہیں۔ ان سے ایسے اختلافات کا صدور جو پاگلوں اور مجنونوں سے بھی ناممکن ہیں۔ کیونکر ہوا، تو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ درحقیقت مرزاقادیانی دماغی امراض دوران سر، مراق، جنون میں فطرتی طور پر مبتلا تھے۔ وہ اپنے دماغی توازن وصحت کو قائم نہ رکھ سکے۔ جس سے ان بے سروپا دعاوی اور مختلف باتوں کا آپ کے دماغ کشت زار سے پیدا ہونا ضروری تھا۔