یا ثناء اﷲ امرتسری ایسا ہی سمجھ رہا ہے اور تو انہیں پر فرض ہے کہ قسم کھانے سے اپنی تقویٰ دکھائیں… مگر کیا یہ لوگ قسم کھا لیں گے۔ ہر گز نہیں کیونکہ یہ جھوٹے ہیں اور کتوں کی طرح جھوٹ کا مردار کھا رہے ہیں۔‘‘ (ضمیمہ انجام آتھم ص۲۵، خزائن ج۱۱ ص۲۰۹)
نوٹ: مرزاقادیانی (ضمیمہ اربعین نمبر۳،۴ ص۵، خزائن ج۱۷ ص۴۷۱) پر فرماتے ہیں: ’’گالیاں دینا اور بدزبانی کرنا بطریق شرافت نہیں۔‘‘ اس سے ناظرین کرام خود ہی نتیجہ نکال سکتے ہیں۔
لطیفہ: ایک دفعہ مرزاقادیانی نے مولانا محمد حسینؒ بٹالوی کی نسبت یہ لکھا کہ اے اﷲ مولوی صاحب کو تیرہ ماہ کے اندر ذلت کی مار سے دنیا میں رسوا کر، جب مولوی صاحب مرحوم کو کسی طرح کی ذلت نہ ہوئی بلکہ روز افزوں عزت افزائی ہوتی گئی تو مرزاقادیانی نے خفیہ کاروائی سے مولوی صاحب پر ایک کفری فتویٰ لگوادیا اور کہا کہ یاد رکھو کہ بس یہی ذلت تھی۔ جب غور کیا اور سمجھے کہ اس سے تو کام نہ چلے گا تو اور سوجھی کہ مولوی صاحب مرحوم کو انہیں ایام سے گورنمنٹ آف انڈیا نے بہت سی اراضی دی تھی۔ جو کہ قریب پانچ مربعہ کے ایک ہی جگہ تھی اور نہری پانی سے خوب آباد تھی۔ تو مرزاقادیانی نے جب دیکھا کہ بجائے ذلت کے ان کو عزت ہے تو فوراً لکھ دیا کہ اراضی کا ملنا بھی ذلت ہے۔ مرزاقادیانی ایسی تاویلیوں سے کام لیا کرتے تھے۔
محمدی بیگم
مرزاقادیانی نے (ضمیمہ انجام آتھم ص۵۴، خزائن ج۱۱ ص۳۳۸) میں لکھتے ہیں: ’’یاد رکھو! اس پیش گوئی کی دوسری جز (نکاح) پوری نہ ہوئی تو میں ہر ایک بد سے بدتر ٹھہروں گا۔‘‘ مرزاقادیانی نے ایک عورت محمدی بیگم سے نکاح کی مشین چلائی تھی۔ جس پر کئی الہام اور خفیہ کاروائیاں بھی کیں۔ مگر اس عورت محمدی بیگم سے آپ محروم رہے۔ برخلاف اس کے عورت کے والد نے اپنی لڑکی کی شادی پٹی میں کر دی۔ وہ آج مورخہ ۳۱؍اکتوبر ۱۹۳۴ء تک زندہ سلامت ہے۔
ناظرین! اپنی قوت استدلالیہ سے خود ہی نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں۔
سری رام چندر
مرزاقادیانی (انجام آتھم ص۴۱، خزائن ج۱۱ ص ایضاً) پر لکھتے ہیں: ’’مریم کا بیٹا کشلیا کے بیٹے سے کچھ زیادت نہیں رکھتا۔‘‘