مرزاقادیانی رسالہ (تشہیذ الاذہان) قادیان ماہ مئی ۱۹۰۶ء میں لکھتے ہیں: ’’میرا حافظہ بہت خراب ہے۔ کئی دفعہ کسی کی ملاقات ہو تب بھی بھول جاتا ہوں۔ حافظہ کی یہ ابتری (یعنی بدترین حالت) ہے کہ بیان نہیں کر سکتا اور مجھ کو ان دو بیماریوں مالیخولیا اور مراق نے کہیں کا نہیں چھوڑا۔‘‘ شاید حافظے کی خرابی کی وجہ ہی سے مرزاقادیانی اپنے عاید کئے ہوئے سابقہ حکموں کو بھول جاتے ہیں اور نئے حکم نافذ کرتے۔
مرزاقادیانی کی نبوت کو پرکھنے کے لئے جو چند پیمانے مقرر کئے گئے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک پر بھی پورا نہ اتر سکے۔ اخلاق وکردار ایسا کہ شرم وحیا بھی اپنا منہ نوچ لے۔ مرزائیو! کیا معصوم دوشیزاؤں کی آہوں اور اشکوں سے کھیلنے والے اخلاق وکردار کے غازی بن سکتے ہیں؟ معلوم نہیں مرزاقادیانی نے کتنی ماؤں کی معصوم مسرتوں کا خون کیا۔ ان سے مسکرانے کی آسودگیاں چھینیں۔ یعنی ایک شیطان پیغمبری کا معصوم لبادہ اوڑھ کر پردۂ سیمیں پر آیا۔ جس کے تقویٰ کا پہلو بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں۔ صداقت وامانت میں کسی عیار اور سود خور بنیئے سے کم نہیں اور عقل وفہم میں پاگلوں سے بھی بڑھ کر۔ حافظہ دیوانے بچوں سے بھی زیادہ تیز۔ کیا مرزائیوں کے نزدیک معیار نبوت یہی ہے؟ جو وہ مرزاقادیانی کو نبی مانتے ہیں۔ یہ ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ ایسے عاقبت نااندیش کو نبی مانتے ہیں۔ جس نے بری خواہشات کا رستہ تن پسندی سے بھر دیا۔ جس نے شغل شراب میں زندگی گزارتے ہوئے انجام فراموش بن کر شرفاء کی عزت سے ٹکر لی۔ جس کی آنکھ ہر وقت حسن بے مثال کی تماشائی بنی رہی۔ جس نے اپنی تعلیمات کو افشائے حقیقت کے خوف سے توڑ مروڑ کر پیش کیا۔ اگر مرزائیوں کو اپنی جانیں عزیز ہیں اور وہ ڈوب کر حرام موت نہیں مرنا چاہتے تو ان کے لئے پھولوں بھرا راستہ یہ ہے کہ نشیلے شربت پکا کر لوگوں کو اپنے شبستان میں کھینچ لانے والے، بوئے گل اور نغمۂ شیریں سنا کر گمراہی کے راستے پر ڈالنے والے کا دامن چھوڑ کر اس ختمی مرتبتؐ کے گلستان میں پناہ لیں۔ جس کے دامن میں ظلم وستم کی کوئی جگہ نہیں۔ جس نے انسانوں کو اخوت ومحبت کا پیکر بنایا۔ جس کے ارادوں میں تسلسل تھا۔ ترتیب تھی۔ استقلال تھا۔ جبھی تو کلیاں آج بھی اسی محبوب صادق کا کلمہ پڑھتی ہوئی بیدار ہوتی ہیںاور آفتاب انہی کا نام لے کر طلوع ہوتا ہے۔ اگر اس بات کی گواہی لیتے ہو تو جاؤ عراق عجم کے کوہساروں سے پوچھو، شام ومصر کے میدانوں سے پوچھو، ایشیا کے دریاؤں اور صحراؤں سے پوچھو۔ افریقہ کے دشت وجبل سے پوچھو۔ بلاشبہ سنگ وخشت، خاروگل، قطرہ وصدف اس کی