قول ریو صاحب، شاہ صاحبؒ نے ۵۰۰ سے زائد رسالے تصوف پر لکھے اور پیچھے چھوڑے۔ ان کے علاوہ ایک اشعار کا دیوان بھی ان کی سب سے بڑی تصنیف ہے۔ دیوان کے متعلق پروفیسر براؤں لکھتے ہیں کہ میرے پاس اس کی طہران کی ۱۲۷۶ھ مطابق ۱۸۶۰ء کی چھپی ہوئی مکمل کاپی ہے۔ مگر اس کے اکثر انتخابات ان تمام کتب سیر اور بیاضوں میں جن میں شاہ صاحبؒ کا حال لکھا ہے۔ مندرج ملتے ہیں۔ شاہ صاحبؒ بحیثیت شاعر اتنے مشہور نہیں جتنے بحیثیت ولی اور صوفی۔
شعر میں آپ کا انداز مغربی کا سا ہے۔ (اس مقام پر پروفیسر موصوف نے آپ کے کلام پر کچھ تنقید لکھی۔ جس کا ذکر ہمارے مقصد سے باہر ہے) آپ کی اپنے خاص رنگ کی تمام نظمیں جو تعداد میں تھوڑی ہیں وہ ہیں۔ جو آپ نے الہامی انداز میں لکھی ہیں۔ ان کا ابھی تک لوگوں پر ایک خاص اثر ہے اور ان کے خاص سلسلہ معتقدین جس کے وہ خود بانی تھے کے علاوہ دوسرے ایرانی بھی ان سے استشہاد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر پروفیسر لکھتے ہیں کہ جب میں کرمان میں تھا تو بابی فرقہ کے لوگ مجھے بتایا کرتے تھے کہ باب کے ظہور کی تاریخ ۱۲۶۰ھ مطابق ۱۸۴۴ء بطور پیش گوئی اسی مے بینم کے قصیدہ میں بتائی گئی ہے۔ جب میں نے ولی نعمت اﷲ کے مقبرہ کی زیارت کی تو میں نے ایک درویش سے اس نظم کا سب سے قدیم اور نہایت معتبر قلمی نسخہ سے اس کی ایک نقل حاصل کی۔ میں نے دیکھا کہ اس میں جو تاریخ دی ہوئی ہے۔ وہ ۱۲۶۰ کے ۲۷۴ نکلتی ہے۔ یعنی (س ر غ= ۱۰۰۰+ ۲۰۰+ ۶۰) کی بجائے اس میں (د ر غ =۷۰+۲۰۰+۴) ہے اور رضا قلی خان کے تذکرہ مجمع الفصحاء میں جہاں یہ نظم درج کی گئی ہے۔ تاریخ (د ر غ= ۱۰۰۰+ ۲۰۰+ ۴) بنتی ہے۔ مجمع الفسحا میں نظم کا عنوان یہ دیا گیا ہے۔ دراظہار بعضے از رموزات ومکاشفات برسبیل کنایات۔ پروفیسر موصوف یہ نظم ہامان میں ۹؍اگست ۱۸۸۸ء کو حاصل کی۔ اس میں ۵۰اشعار ہیں۔ مجمع الصفحا میں صرف ۲۴ہیں اور ایک یادو شعر نئے ہیں۔ یعنی پروفیسر صاحب کی کاپی میں وہ نہیں ہیں۔ بعض جگہ ترتیب اشعار بھی مختلف ہے اور کہیں کہیں الفاظ وعبارت میں تغیروتبدل بھی ہے۔ پروفیسر صاحب لکھتے ہیں کہ جس چھپے ہوئے دیوان کا ادھر ذکر کیاگیا ہے۔ اس میں یہ نظم بالکل مفقود ہے۔ ان کے عام اشعار پر رائے زنی کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ان کا کلام عام طور پر مبہم وپیچیدہ اقوال سے پر ہے۔ مثلاً عام طور پر آپ فتنہ آخرالزمان اور ظہور امام مہدی کے متعلق ہی پیش گوئیاں وغیرہ لکھتے ہیں۔ یہ بھی لکھا ہے کہ جب میں ۱۸۸۸ء میں قبر کو دیکھنے ماہان گیا تو وہاں نعمت الٰہی سلسلہ کے درویشوں نے جو مزار پر موجود تھے۔ میری بہت خاطر تواضع کی۔