بسم اﷲ الرحمن الرحیم!
مکرم برادران اسلام!
کسی مدعی کے دعویٰ کی تصدیق کے واسطے شہادت کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ دعویٰ بلاثبوت وشہادت قابل سماعت نہیں اور نہ مدعی کی اپنی شہادت اپنے دعویٰ کی تصدیق میں حجت ہوسکتی ہے۔ لہٰذا مدعی کے واسطے ضروری ہے کہ اپنے دعویٰ کی تصدیق میں گواہ پیش کرے۔ اس اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے مرزاقادیانی نے بھی اپنے دعویٰ مہدی آخرالزمان ہونے کی تصدیق میں شاہ نعمت اﷲ ولی کرمانی کا قصیدہ پیش کیا ہے۔ جب اصل قصیدہ دیکھا گیا تو معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی نے جس طرح توریت، انجیل، قرآن واحادیث نبوی وغیرہ میں تحریف کر کے سادہ لوحوں کو مغالطہ دیا ہے۔ اسی طرح اس قصدیہ میں بھی توڑ مروڑ کر کے نیچے کے اشعار اوپر اور اوپر کے نیچے کر کے، الفاظ تبدیل کر کے، معانی غلط کر کے اپنا الو سیدھا کیا ہے۔ مثلاً قصیدہ میں مہدی کا نام محمد تھا اور مرزاقادیانی نے احمد کر لیا۔ کیونکہ اس کا اپنا نام محمد نہ تھا۔ دیکھو ذیل کے اشعار ؎
میم حامیم دال مے خوانم
نام او نامدار مے بینم
مرزاقادیانی نے لکھا ہے ؎
اح م دال مے خوانم
نام آں نامدار مے بینم
جب مدعی اپنے گواہ کے بیان میں اپنے مطلب کے الفاظ تبدیل کر دے تو وہ مدعی ایسی شہادت پیش کردہ سے کبھی ڈگری حاصل نہیں کر سکتا اور نہ کوئی عدالت اس شہادت محرف ومتبدل کی وقعت رکھ سکتی ہے۔ مگر خدا کا شکر ہے کہ جس گواہ کو مرزاقادیانی پیش کرتے ہیں۔ وہی گواہ مرزاقادیانی کے برخلاف گواہی دیتا ہے اور مرزاقادیانی کو جھوٹا مدعی قرار دیتا ہے۔ جیسا کہ عراق اور خراسان میں جنگ کا ہونا مقامات مقدسہ کا خراب ہونا تمام دنیا کے بادشاہوں کا باہمی خونریز جنگ ہونا وغیرہ وغیرہ ان تمام واقعات کے بعد امام آخرالزمان مہدی علیہ السلام کا ظہور قصیدہ پیش کردہ مرزاقادیانی میں لکھا ہے۔ چونکہ یہ واقعات مرزاقادیانی کے فوت ہونے کے دس سال بعد وقوع میں آئے ہیں۔ اس لئے ثابت ہوا کہ مرزاقادیانی کے دعویٰ مہدی آخرالزمان کی تردید