کے مذہب کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن جسے دیگر اقلیتوں ہندو، سکھ اور عیسائیوں کی مانند تمام بنیادی حقوق وتحفظات حاصل ہیں۔ قادیانیت پہلے بھی اسلام سے ایک جدا مسلک تھا۔ لیکن مندرجہ بالا قرارداد کی منظوری سے اس کے خط وخال کی چہرہ کشائی ہوگئی ہے اور قادیانی کفر وارتداد کے اصنام پاش پاش ہوگئے ہیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی کے معتقد قادیانی یا احمدیوں کے علاوہ لاہوری گروہ کے اراکین کو بھی اسلام کا بہروپ دھارنے کی قانونی طور پر ممانعت کر دی گئی ہے اور یہ سب ان تحفظات سے محروم ہوگئے ہیں۔ جو دین اسلام کے نام پر انہوں نے حاصل کر رکھے تھے۔ اردن میں بھی پاکستان کی پیروی کرتے ہوئے اردنی فتویٰ بورڈ نے قادیانیوں کے کافرانہ عقائد کا تفصیلی جائزہ لے کر انہیں دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا ہے۔ کئی دیگر اسلامی ممالک مثلاً ملائشیا نے بھی بروقت کاروائی کرتے ہوئے غداروں کے اس ٹولے کو غیرمسلم اقلیت قرار دے کر اپنے ملکوں میں اس فتنہ کا سدباب کیا ہے۔ لیکن کیا قادیانیوں کو غیرمسلم قرار دے دینا اور ختم نبوت کو مسلمانوں کی امنگوں کے مطابق قانونی تحفظ مل جانا ہی کافی ہے؟ ہرگز ہرگز نہیں۔ قادیانیت خالصاً ایک سیاسی تحریک ہے۔ جس کے پیش نظر سیاسی نصب العین ہے۔ وہ یہودیوں کی مانند دنیا پر حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اپنے عزائم کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کے لئے دن رات مصروف جدوجہد ہیں۔ ’’نہیں معلوم کب ہمیں خدا کی طرف سے دنیا کا چارج سپرد کر دیا جاتا ہے۔ ہمیں اپنی طرف سے تیار ہو جانا چاہئے کہ دنیا کو سنبھال سکیں۔‘‘
(خطبہ محمود احمد خلیفہ قادیان، الفضل بابت ماہ جون ۱۹۴۰ئ)
لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان حسب عادت حکومت سے ایک مطالبہ منوانے کے بعد خواب خرگوش کے مزے نہ لوٹیں۔ بلکہ انگریزوں کے اس کاسہ لیس گروہ کی ریشہ دوانیوں سے ہوشیار رہیں۔ جو امت مسلمہ کی فکری وحدت کو پاش پاش کرنے کے لئے وجود میں لایا گیا تھا اور جواب بھی اسلام کے خلاف عالمی استعمار کی سازشوں کا ایک مہرہ ہے۔ نیز جو آج بھی پاکستان کے وجود کے لئے خطرہ ہے جو آج بھی اس کی سالمیت کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ آئین میں ترمیم کے باوجود جو آج بھی اس کے ہر محکمے، ہر سرکاری وغیرسرکاری ادارے اور ہر صنعت پر چھایا ہوا ہے اور مسلمانوں کے حقوق غصب کئے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آبادی کے لحاظ سے مختلف محکموں میں ان کی نمائندگی کا تناسب مقرر کیا جائے۔
تمت بالخیر!