’’ہمارے مخالفین پر واضح ہوکہ ہمارا صدق یا کذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص۲۸۸)
گویا متنبی قادیانی نے خود اپنے دعویٰ کی صداقت کا معیار یا کسوٹی اپنی پیش گوئیوں ہی کو ٹھہرایا ہے۔ اس کی نام نہاد پیش گوئیاں تعداد میں کثیر ہیں۔ جو اس کے دور کے تاریخی، سیاسی اور معاشرتی حالات وواقعات پر محیط ہیں۔ جب بھی کوئی ایسا واقعہ رونما ہوتا۔ جس پر عوام الناس کی توجہ مرکوز ہو جاتی تو مرزا قادیانی بلاتاخیر اس سے اپنی کسی پیش گوئی کی تکمیل ثابت کرنے کی کوشش کرتا تھا اور اسے اپنی نیک نامی میں اضافے کا سبب بنادینا چاہتا۔ اکثر اوقات اس کی مبہم قسم کی پیش گوئیاں تشنۂ تکمیل رہ جاتیں۔ تو مخالفین کے ہاتھوں سے شدید تنقید کا طنزوتضحیک کا ہدف بننا پڑتا۔ لیکن اپنی غلطی کا اعتراف کرنے اور آئندہ کے لئے کذب بیانی اور بیہودہ گوئی سے تائب ہونے کی بجائے وہ ذلت ورسوائی سے بچنے کے لئے اپنی پیش گوئی کے ابہام والتباس میں پناہ ڈھونڈنے کی ناکام کوشش کرتا اور مختلف تاویلیں پیش کرتا۔ اس کی نام نہاد پیش گوئیاں اکثر زلزلوں، آفات وحادثات، تباہی وبربادی اور مخالفین کی تذلیل وموت سے متعلق ہی ہوتیں۔ سچ پوچھئے تو اس کی یہ گل افشانیاں پیش گوئیاں تو نہیں۔ البتہ بددعائیں، دشنام طرازیاں اور لعنتیں ملامتیں ضرور تھیں۔ جن کو بیان کر کے اپنا اعمال نامہ سیاہ کرتا رہتا۔
درحقیقت مرزاقادیانی کے اس دعویٰ نے امت کو دو مخالف گروہوں میں تقسیم کر دیا تھا اور دونوں طرف سے دلائل وجواب دلائل کا سلسلہ چل نکلا تھا۔ جونہی کوئی شخص مرزاقادیانی کے کذب کو ثابت کرنے کے لئے زبان کھولتا۔ وہ فوری طور پر اس پر لعن طعن کی بوچھاڑ کرتے ہوئے بددعاؤں کے تیر چلانے شروع کر دیتا۔ عبداﷲ آتھم عیسائی، چراغ دین قادیانی (مرزاقادیانی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے نبوت کا دعویدار) مولانا ثناء اﷲ امرتسری، ڈاکٹر عبدالحکیم پٹیالوی، پنڈت لیکھ رام خصوصاً مرزاقادیانی کی نام نہاد پیش گوئیوں کے ہدف بنے رہے ہیں۔ عبداﷲ آتھم متنبی قادیانی کے عیسائی مخالفین میں سے تھا۔ دونوں میں اکثر مذہبی مناظرے ہوتے رہتے۔ ایک دفعہ مناظرے سے پہلے ہی مرزاقادیانی نے اپنے حاشیہ برداروں کو خوش کرنے کے لئے اپنی کامیابی کی پیش گوئی سنادی۔ لیکن اس خوشخبری کے برعکس جب مناظرہ بغیر کسی فیصلے کے اختتام پذیر ہوا۔ تو اس نے اپنے مخالفین کو لعنت ملامت اور گالی گلوچ اور بددعاؤں سے نوازنا شروع کردیا۔ لہٰذا جون۱۸۹۳ء کو اس نے اعلان کر دیا کہ عبداﷲ آتھم پندرہ