ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو ایک خاص عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔ ہمارے خاندان نے سرکاری انگریزی کی راہ میں اپنے خون بہانے اور جان دینے سے فرق نہیںکیا اور نہ اب فرق ہے۔ لہٰذا ہمارا حق ہے کہ ہم خدمات گذشتہ کے لحاظ سے سرکار مدار کی پوری عنایات اور خصوصیت توجہ کی درخواست کریں۔ تاکہ ہر ایک شخص بے وجہ ہمارے آبروریزی کے لئے دلیری نہ کر سکے۔
درخواست بحضور نواب لیفٹیننٹ گورنر بہادر دام اقبالہ‘ منجانب خاکسار مرزاغلام احمد قادیانی مورخہ ۲۴؍فروری ۱۸۹۸ئ۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۳۱)
لیجئے! بلی تھیلے سے باہر آہی گئی۔ مرزاغلام احمد قادیانی کا خاندان ایک ایسی طاغوتی طاقت کا خادم وجان نثار ہے جو اسلام کی ازلی دشمن ہے۔ اب یہ قارئین کرام کا کام ہے کہ وہ خود یہ فیصلہ فرمائیں کہ اس خط کا تحریر کنندہ خدا کا بھیجا ہوا نبی ہے یا برطانوی حکومت کا ساختہ نبی۔ خصوصاً اس کا خود اعتراف ہے کہ قادیانیت برطانوی حکومت کا خود کاشتہ پودا ہے۔ مرزاغلام احمد قادیانی کی ایک اور درخواست کا ایک پیراگراف ملاحظہ فرمائیے: ’’میرا مذہب جس کو باربار ظاہر کرتا ہوں یہ ہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔ ایک خداتعالیٰ کی اطاعت، دوسرے اس سلطنت کی جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سایہ میں ہمیں پناہ دی۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔ اگر ہم اس حکومت برطانیہ سے سرکشی کریںتو گویا یہ اصل اسلام، خدا اور رسول سے سرکشی کرتے ہیں۔‘‘
(بعنوان گورنمنٹ عالیہ کی توجہ کے لئے، شہادت القرآن ص۸۴، خزائن ج۶ ص۳۸۰)
یہ تھا کردار قادیانیت کے بانی کا، اور یہ تھے مذموم مقاصد اس زیر زمین تحریک کے، جو برطانوی حکومت کے ایماء پر شروع کی گئی تھی۔ یہ تحریک اسلام کے بنیادی اعتقادات کے خلاف بغاوت تھی۔ ایسی بغاوت جو اسلام کی ازلی دشمن عیسائیت نے اس دین برحق کے خلاف کھڑی کی تھی۔ ابتداء سے آج تک اس کا یہی کردار رہا ہے۔ اسلام کا لبادہ تو صرف سادہ لوح مسلمانوں کو دھوکا دینے اور اپنی جڑیں مضبوط کرنے کے لئے اوڑھا گیا تھا۔ ورنہ اس کا اسلام اور قرآن حکیم سے کوئی تعلق نہیں۔ غلام احمد قادیانی نے تو اپنے بیہودہ اور فضول اوہام کو الہامات کا نام دے کر نہ صرف قرآن حکیم کی آسمانی تعلیمات کے برابر لا کھڑا کیا۔ بلکہ اپنے مراقی ذہن کے بے لگام ملحدانہ خیالات کو وحی سے موسوم کر کے المبین کے نام سے بیس اجزاء پر مشتمل کتاب کو قرآن عظیم کی جگہ دینے کی ناپاک جسارت بھی کر ڈالی۔