اس حدیث مبارکہ سے دو اہم نقاط کی وضاحت ہوتی ہے۔ (۱)سرور کونین حضور علیہ الصلوٰۃ پر اختتام نبوت۔ (۲)رسالت مآبﷺ کے بعد ۳۰کاذبوں کا دعویٰ نبوت۔
اس مختصر سے کتابچے میں ایسے ہی ایک کاذب نبی جس کا تعلق قادیان سے ہے، کے عقائد کی تصریح کرتے ہوئے اس کے دعوؤں کا پول کھولا گیا ہے۔ سید الانبیاء حضورﷺ کی ختم المرسلینی کی شہادت میں واضح قرآنی آیات، صاف اور روشن احادیث نبوی کی موجودگی اور امت مسلمہ کے اجماع کے باوجود اس کاذب نبی سے قبل بھی کئی گم کردہ راہ اشخاص مختلف ادوار میں نبوت کا ڈھونگ رچاتے رہے ہیں۔ مسیلمہ بن حبیب نے سرور کونینؐ کی حیات طیبہ کے دوران ہی نبوت کا دعویٰ کر دیا تھا۔ تاریخ میں اس مدعی نبوت کو کذاب کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ شخص مدینہ منورہ میں رسالت مآبﷺ کی خدمت اقدس میں مشرف بہ اسلام ہونے کے لئے حاضر ہوا۔ لیکن چونکہ ذہن میں فتور تھا۔ سیاسی مقاصد پیش نظر تھے۔ اقتدار کا متمنی تھا۔ کسی سلطنت کا تاجدار بننے کے خواب پریشان کا شکار تھا۔ لہٰذا نبوت کا دعویٰ کر دیا۔ نیز سیدالاولین وآخرینؐ کے حضور چند شرائط پیش کرتے ہوئے استدعا کی کہ اسے نبوت میں شریک ٹھہرا کر جانشین نامزد کر دیا جائے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اس پر رحمن نامی فرشتے کے ذریعے وحی کا نزول ہوتا تھا اور یوں نازل شدہ کتاب مختلف ابواب وآیات پر مشتمل تھی۔ خاتم النبیینﷺ کے وصال کے بعد آپؐ کی خواہش کے مطابق خلیفہ اوّل سیدنا حضرت ابوبکرصدیقؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کی زیرکمان مرتد وکذاب کی گوشمالی کے لئے فوج کا ایک دستہ روانہ فرمایا۔ مسیلمہ چالیس ہزار مسلح نوجوانوں کو لے کر مقابلے کے لئے بڑھا لیکن شکست کھائی اور قتل ہوا۔
آنحضورﷺ کے عہد مبارک میں یمن کے ایک باشندہ اسود عنسی نے بھی نبی ہونے کا دعویٰ کیا۔ اس کا اصل نام عیہلہ ابن کعب اور لقب ذی اطماز تھا۔ وہ اپنی زبان کی فصاحت وبلاغت علم الٰہیات اور شاعری کے سبب معروف تھا۔ اس نے بھی یہی مشہور کر رکھا تھا کہ اﷲتعالیٰ کی طرف سے اس پر وحی نازل ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ حالت وجد میں وہ اپنا سر جھکا لیتا پھر قدرے توقف کے بعد اسے اوپر اٹھاتے ہوئے کہتا: ’’اس نے مجھے یہ اور یہ حکم دیا ہے۔‘‘ اس مکار اور جھوٹے مدعی نبوت کو ختم المرسلینﷺ کے وصال سے ۲۴گھنٹے پیشتر واصل جہنم کردیا گیا تھا۔
قبیلہ اسد سے طلیحہ بن خویلد نے ایک وفد کے ہمراہ سرور کائنات، رسول خدا، محمدﷺ