اﷲتعالیٰ کے آخری نبی ہیں۔ قرآنی آیات کے علاوہ تقریباً ۲۱۰ احادیث مبارکہ آنحضورﷺ کی ختم المرسلینی پر شاہد ہیں۔
حضرت ابوہریرہؓ حضور اقدسؐ فداہ امی وابی سے روایت فرماتے ہیں کہ اپؐ نے فرمایا کہ میری مثال مجھ سے پہلے انبیاء کے ساتھ ایسی ہے کہ جیسے کہ کسی شخص نے گھر بنایا اور اس کو بہت عمدہ اور آراستہ وپیراستہ بنایا۔ مگر اس کے ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ تعمیر سے چھوڑ دی۔ پس لوگ اس کے دیکھنے کو جوق در جوق آتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور کہتے جاتے ہیں کہ یہ ایک اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی۔ چنانچہ میں (حضورﷺ) نے اس جگہ کو پر کیا اور مجھ ہی سے قصر نبوت مکمل ہوا اور میں ہی خاتم النبیین ہوں (یا) مجھ پر تمام رسل ختم کر دئیے گئے۔
(مشکوٰۃ ص۵۱۱، باب فضائل سید المرسلین)
حضرت سعدؓ بن ابی وقاص فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے حضرت علیؓ سے فرمایا کہ: ’’تم میرے ساتھ ایسے ہو جیسے حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ تھے۔ مگر میر بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔ (اس لئے) کہ تم ہارون (علیہ السلام) کی طرح نبی نہیںہو۔‘‘
(مشکوٰۃ ص۵۶۳، باب مناقب علیؓ بن ابی طالبؓ)
مندرجہ بالا احادیث کسی ابہام کے بغیر پیغمبر اسلام کے بعد کسی بھی نبی کی بعثت کی نفی کرتی ہیں۔ گذشتہ چودہ سو سال سے امت مسلمہ کا بالاجماع یہی عقیدہ رہا ہے۔ چنانچہ امام غزالیؒ امت کے اجماع پر اظہار خیال کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’تمام امت نے لفظ خاتم النبیین سے سمجھا کہ یہ آیت آنحضرتﷺ کے بعد مطلقاً کسی نبی یا کسی رسول کے پیدا ہونے کی نفی کرتی ہے اور تمام امت محمدیہ کا یہ بھی عقیدہ ہے کہ نہ اس میں کوئی تاویل ہے نہ تخصیص اور جس نے اس آیت کو تاویل کر کے کسی خاص جماعت سے خاص کرنے کا ارادہ کیا۔ اس کا کلام از قبیل ہذیان ہے اور اس کی یہ تاویل ہمیں اس سے نہیں روک سکتی کہ ہم اس کے کافر ہونے کا حکم لگادیں۔ اس لئے کہ وہ شخص اس آیت کریمہ کا مکذب اور منکر ہے۔ جس پر امت کا اجماع ہے کہ نہ اس میں کوئی تاویل اور نہ کوئی تخصیص۔‘‘ (الاقتصاد فی الاعتقاد ص۱۲۳)
حضرت ثوبانؓ رسالت مآبﷺ سے روایت فرماتے ہیں کہ: ’’میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوںگے۔ جن میں سے ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا۔‘‘ (مشکوٰۃ ص۴۶۵، باب الملاحم)