تعجب ہے کہ اس دور میںجب یورپی طاقتیں اسلامی سلطنتوں کو تہ وبالا کرنے میں سرگرم عمل تھیں۔ مرزاغلام احمد قادیانی نے مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئے بھی امت مسلمہ میں انتشار وتفرقہ پیدا کرنے کے لئے اسلام کے مقابلہ میں ایک اور مذہب لاکھڑا کیا اور دین اسلام کے بنیادی رکن فریضۂ جہاد کو حرام قرار دے دیا۔ اس اہم فریضہ کو حرام قرار دے کر دراصل مرزاقادیانی نے نہ صرف انگریز بہادر کی بے پایاں خدمت کی بلکہ ملت اسلامیہ کی جڑیں کاٹنے کی مذموم کوشش بھی کی۔
اس طرح برطانوی سامراج مرزاقادیانی کے روپ میں اپنا ایجنٹ پالینے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ ملت اسلامیہ سے اس غداری کے صلہ میں انگریز حاکموں نے مرزاقادیانی کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی کہ وہ جس طرح چاہے اپنے حریفوں کو گالیوں سے نوازے۔ حریف تو درکنار اس کی مغلظ زبان کی زد سے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی نہ بچ سکے۔ لیکن حضرت مسیح علیہ السلام کے پرستار عیسائی حکمرانوں نے اس کی یاوہ گوئی اور ہرزہ سرائی سے چشم پوشی اختیار کر لی۔ اپنے خدا کے بیٹے اور اس کے خاندان کے خلاف سب کچھ سنا۔ لیکن اف تک نہ کی۔ یہی خاموشی ان کے مرزاقادیانی کے سرپرست ہونے کا بیّن ثبوت ہے۔ ورنہ کون بے غیرت قوم اپنے روحانی پیشوا کی رسوائی وذلت کو برداشت کرسکتی ہے۔
ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ مناظرے بھی دراصل ایک ایسی چال تھی۔ جس کا مقصد سادہ لوح مسلمانوں کو اس دام فریب میں مبتلا کرنا تھا کہ مرزاقادیانی ہی اسلام کا سب سے بڑا مبلغ وہمدرد تھا اور وہ دشمنان اسلام کے خلاف محاذ آرائی کر کے اسلام کی بہت بڑی خدمت انجام دے رہا تھا۔
حالانکہ اس دعویٰ میں حقیقت کی کوئی رمق ہوتی تو مرزاقادیانی اور اس کے جانشینوں کو انگریزوں کے عہد حکومت میں ان کی سرپرستی حاصل نہ ہوتی اور آج بھی جب برصغیر سے ان کے اقتدار کا جنازہ اٹھے اٹھائیس سال بیت چکے ہیں۔ وہ سات سمندر پار بیٹھے اس فرقہ کی حمایت وحفاظت پر کمربستہ دکھائی نہ دیتے۔
۱۹۴۷ء میں پاکستان معرض وجود میں آیا تو تمام قادیانی بھی اس نوزائدہ اسلامی ریاست میں منتقل ہوگئے اور ان کا ایک سرکردہ رہنما کسی نہ کسی طرح وزارت خارجہ کا سربراہ بننے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے اپنے ہم مذہبوں کی ہر طرح حوصلہ افزائی کی۔ انہیں کلیدی عہدوں پر