نے ہندوستان میں اسلام کا پرچم بلند کیا۔ یوں تو تاریخ عالم ہی ایک بل کھاتی ہوئی نہر کی طرح ہے۔ لیکن برصغیر پاک وہند کی تاریخ ایک جنگل کی طرح ہے جو خاردار جھاڑیوں میں الجھا ہوا ہو۔ جہاں راستہ تلاش کرنا ناممکن ہے۔ محمدبن قاسمؒ کے بعد محمود غزنویؒ ایک بگولے کی طرح آیا اور آندھی کی طرح واپس چلاگیا۔ اس کے بعد خاندان غلامان نے برصغیر کی تاریخ میں ایک خونی باب کا اضافہ کیا۔ اسی طرح خلجی، تغلق، سید اور لودھی خاندان برسراقتدار رہنے کے بعد مٹ گئے اور برصغیر کی حکومت تاتاریوں کی مسلمان اولاد کے ہاتھ لگی جو مغلوں کے روپ میں نمودار ہوئے اور ظہیرالدین بابر نے ۱۵۲۶ء میں مغل حکومت کی بنیاد رکھی۔
مغلیہ حکومت اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں نقطۂ عروج پر پہنچی اور اس کے بعد زوال پذیر ہونا شروع ہوئی۔ محمدشاہ رنگیلا جیسے حکمرانوں نے اس کے زوال میں بڑا کردار ادا کیااور نادرشاہ درانی اور احمدشاہ ابدالی نے ملک کر مغلوں کی تجہیزوتکفین کردی۔ اس دوران مغربی قوموں نے تجارت کی غرض سے ہندوستان کے سمندروں پر مورچے بنائے۔ کچھ عرصہ تک یہ قومیں باہمی اتحاد کے ساتھ کام کرتی رہیں۔ لیکن بعد ازاں انہوں نے مقامی حکومتوں کے معاملات میں مداخلت شروع کردی جو ان کی باہمی جنگوں کا سبب بنی اور کرناٹک کی لڑائیوں کے بعد برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی سیاہ وسفید کی مالک بن گئی۔ انگریزوں نے مسلمانوں کے باہمی نفاق سے خوب ہاتھ رنگے اور وہ مسلمانوں کی کمزوریوں سے واقف ہوگئے۔ ان کے پاس جدید اسلحہ تھا۔ کرائے کے فوجی عام مل جاتے تھے اور غداروں کی بھی کمی نہ تھی۔ جس کی وجہ سے انہوں نے برصغیر پر حکومت کرنے کے خواب دیکھنے شروع کردئیے۔ سب سے پہلے بنگال انگریزوں کے جبرواستبداد کا نشانہ بنا اور میر جعفر اور میر قاسم کی غداری کی وجہ سے انگریز نواب سراج الدولہ کو شکست دے کر بنگال پر قابض ہوگئے اور یہاں کی دولت سے اپنی پوزیشن مستحکم کرلی۔ ہندوستان میں انگریزوں کے تسلط کے خلاف آواز بلند کرنے اور تحریک آزادی کی بنیاد رکھنے والا ریاست میسور کے حکمران حیدر علی کا بیدار مغز بیٹا سلطان ٹیپو تھا۔ جو متلاطم دریائوں پر لڑنا جانتا تھا۔ انگریزوں کے لئے سب سے مضبوط آہنی دیوارثابت ہوا اور جام شہادت پیا۔ فرنگستان سے جو عظیم خطرہ (سوداگروں کے لباس میں) تیز رفتار جنگی جہازوں میں سوار ہوکر سات سمندر پار کرکے ہمارے ساحلوں پر پہنچا اور ان بحری قزاقوں نے ہمارے پانیوں میں ہمارا شکار کیا۔ اب یہ سوداگروں کا ٹولہ حکمران بن چکا تھا۔ جب انگریز برصغیر میں آئے۔ اس وقت مسلمان ہی ان کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے اور