ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
وضع یہ تھی کہ ٹخنوں سے نیچا پاجامہ ـ داڑھی چڑھی ہوئی ٹوپی بانکی اور بہت آزاد ـ اور جب کوئی ان کو نصیحت کرتا اور دوزخ اور جنت کی ترہیب و رغیب کرتا تو یہ جواب دیا کرتے تھے کہ تم کو کیا مطلب ہم جانیں ہمارا خدا ـ باقی رہی جنت سو جنت میں جانا کیا دشوار ہے ـ بس جہاں تلوار کے دو ہاتھ ادھر دو ہاتھ ادھر نکالے اور جنت میں داخل ہو گئے ـ اسی زمانہ میں یہ واقعہ پیش آیا کہ ان ہی اطراف میں ہنوماں گڑھی ایک مقام تھا وہاں ہندو مسلمانوں میں کوئی مذہبی نزاع ہو گیا اور مسلمانوں پر ظلم کیا گیا ادوھ کی سلطنت تھی مگر مسلمانوں کی مدد نہیں کی گئی ـ جب مولوی امیر علی صاحب کو یہ حال معلوم ہوا تو انہوں نے امداد کا ارادہ کیا اور مسلمانوں کو جب مولوی امیر علی صاحب کے اس ارادہ کی اطلاع ہوئی تو بہت سے مسلمان مولوی صاحب کے ساتھ ہو گئے ـ اس وقت یہ خان صاحب بھی مولوی امیر علی صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مولوی صاحب میں یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ کیا اللہ میاں مجھ جیسے گنہگار سیہ کار کو بھی اپنے یہاں قبول فرما سکتے ہیں ـ مولوی صاحب نے جواب دیا کہ کیوں نہیں ـ ان کی تو بڑی شان ہے وہ تو بڑے غفور الرحیم ہیں ـ ان کے دربار میں توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا ہوا ہے ـ جب جس کا دل چاہے آ جائے ـ خان صاحب نے جب یہ جواب سنا تو خان صاحب بھی مولوی صاحب کے ساتھ آ کر شریک ہو گئے ـ ایک روز ہنومان گڑھی کفار سے مقابلہ ہوا تو یہ خان صاحب بھی شریک تھے ـ تلوار ہاتھ میں لے کر نکلے اور انہوں نے کئی کافروں کو قتل کیا اور اس کے بعد کسی شخص نے ان پر بھی وار کیا جس سے یہ شہید ہو گئے ـ یہ واقعہ بیان فرما کر حضرت حکیم الامتہ دام ظلہم العالی نے ارشاد فرمایا کہ ان خاں صاحب نے جو نصیحت کے جواب میں یہ کلمات کہے تھے کہ تم کو کیا مطلب ہم جانیں ہمارا خدا تو ایسے کلمات گو خلاف ادب تھے مگر ان خان صاحب کو مقام ناز حاصل تھا باقی ہر شخص کو ایسی جرات کرنا مناسب نہیں کہ وہ ناز کرنے لگے اور بے ادبی کے کلمات زبان سے نکالنے لگے ـ اب رہی یہ بات کہ اس مقام کے حاصل ہونے کی کیا علامت ہے اور یہ کیسے معلوم ہو سو یہ ظاہر ہے کہ اب نبوت کا زمانہ تو ہے نہیں کہ جو کسی امر کے متعلق وحی آنے کا انتظار ہو پس اب ایسے امور کی اجازت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ صاحب معاملہ کے قلب میں اس امر کا ایسا داعیہ قویہ پیدا ہو جائے کہ جس کا مقابلہ تکلف کے ممکن نہ ہو ـ