ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
رہی تھی تو اس لئے حضرت ابراہیم نے جب اپنے صاحبزادے کو دیکھا تو شفقت و محبت پدری کا جوش ہوا تو اس وقت حضرت ابراہیم کو الہام ہوا کہ حب حق ہو دل میں یا حب پسر جمع ان دونوں کو تو ہر گز نہ کر اس وجہ سے حضرت ابراہیم نے دعا کی کہ بار الہیا تو مجھ کو موت دے دیجئے یا اس کو چناچہ صاحبزادے کا انتقال ہو گیا ـ مگر اصول شرعیہ پر نظر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ وجہ غلط ہے ـ کیونکہ دو حال سے خالی نہیں یا تو وہ محبت جو صاحبزدے کو دکھ کر حضرت ابراہیم کے قلب میں پیدا ہوئی تھی حضرت حق کی محبت پر غالب تھی یا نہ تھی اگر کہا جاوے کہ غالب تھی تو ایسی محبت کا قلب میں جگہ دینا حضرت ابراہیم کی شان سے بالکل بعید تھا اور اگر کہا جاوے کہ وہ محبت حضرت حق کی محبت پر غالب نہ تھی بلکہ مغلوب تھی تو ایسی محبت کس کے لئے مضر نہیں حتی کہ انبیاء کو بھی ایسی محبت سے نہیں روکا گیا تو اولیاء کا درجہ تو بعد ہی میں ہے ـ چناچہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو جتنی محبت حضرت یوسف علیہ السلام سے تھی سب کو معلوم ہے مگر کہیں ثابت نہیں کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو اس سے منع فرمایا گیا ہو بلکہ اولاد کی ایسی محبت جو حضرت حق کی محبت پر غالب نہ ہو ہر مسلمان کے لئے محمود ہے کیونکہ اولاد حقوق کا ادا کرنا مامور بہ ہے اور یہ محبت اس کی معین ہے لہٰذا حضرت ابراہیم کے لئے بھی ایسی محبت سے ممانعت کی کوئی وجہ نہ تھی البتہ ہمارے حضرت حاجی صاحب نے ان صاحبزادے کے متعلق جو واقعہ بیان فرمایا ہے وہ نہایت لطیف ہے وہ یہ کہ جب یہ صاحبزادے حضرت ابراہیم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان پر حضرت ابراہیم کی نظر پڑی تو شفقت پدری کو جوش ہوا اور چاہا کہ جیسا میرا بیٹا دولت ظاہری سے مالا مال ہے اسی طرح دولت باطنی سے بھی محروم نہ رہے بلکہ اس کے اندر بھی بلا مشقت دفعۃ اس کو کمال حاصل ہو جاوے لہٰذا انہوں نے ان صاحبزادے کو توجہ دی اور جوش محبت میں یہ خیال رہا نہیں کہ اس کا تحمل بھی اس کو ہو سکے گا یہ نہیں تو چونکہ وہ توجہ نہایت قوی تھی اس لئے وہ صاحبزادے اس توجہ کی تاب نہ لا سکے اور فورا جان بحق ہو گئے تو توجہ کے ذریعہ سے جو دفعۃ بلا مجاہدہ کوئی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے اس میں خطرہ ہوتا ہے مضرت کا غرضیکہ عادۃ اللہ یہی ہے کہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ بلا مجاہدہ کوئی کامل