ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
لہٰذا ہم اس پر تیار ہو گئے ہیں کہ اس سے جہاد کریں لہٰذا آپ سے ہماری یہ درخواست ہے کہ آپ ہمارے اوپر کسی شخص کو سردار اور بادشاہ مقرر فرمادیں تاکہ ہم سب اس کے زیر کمان اس جہاد کے کام کو انجام دیں تو حضرت شمویل نے ان کی یہ درخواست قبول فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ حق سبحانہ تعالی نے طالوت کو تمہارے لئے بادشاہ مقرر فرمایا ہے بنی اسرائیل نے جب طالوت کا نام سنا تا عرض کیا کہ حضرت ہمارے اوپر ہمارے ہوتے ہوئے اس کو بادشاہ بنانا مناسب نہیں معلوم ہوتا اس سے زیادہ تو ہم مستحق ہیں بادشاہی کے ان کے پاس کچھ مالی وسعت بھی نہیں ہے بلکہ وہ ایک غریب آدمی ہیں لہٰذا ہم میں سے کسی کو آپ بادشاہ مقرر فرمادیں تو بہتر ہے اس پر حضرت شمویل علیہ السلام نے فرمایا کہ اول تو حق تعالی نے تمہارے مقابلہ میں اس کو منتخب فرمایا ہے اور انتخاب کی مصلحتوں کو اللہ تعالی خوب جانتے ہیں اور دوسرے علم ( سیاست ) اور جسامت میں اس کو تم سب تفوق دیا ہے اور بادشاہ ہونے کے لئے اس علم کی زیادہ ضرورت ہے تاکہ ملکی انتظام پر قادر ہو اور جسامت بھی بایں معنی مناسب ہے کہ موافق و مخالف کے قلوب میں اس کی وقعت و ہیبت ہو ـ اور تیسرے اللہ تعالی مالک الملک ہیں اپنا ملک جس کو چاہیں دیں اور چوتھے اللہ تعالی وسعت دینے والے ہیں ان کو کسی کو مال دے دینا کیا مشکل ہے ـ لہٰذا تمہارا یہ خیال کہ وہ تم پر بادشاہ بنائے جانے کا مستحق نہیں بالکل غلط ہے چناچہ بنی اسرئیل نے آخر کار حضرت طالوت ہی کو اپنا بادشاہ تسلیم کر لیا اور جملہ ملکی اور سیاسی امور کا انتظام کیجئے بلکہ ان کی درخواست پر بجائے نبی کے ایک دوسرے شخص کو بادشاہ بنایا جانا تجویز کیا تو معلوم ہوا کہ ان کو یہ بات پہلے سے معلوم تھی کہ نبی کے لئے سیاسیات میں دخل دینا ضروری نہیں اور اگر کہا جاوے کہ بنی اسرائیل نے غلطی کی کہ نبی کے ہوتے ہوئے غیر نبی سے یہ کام لینا چاہا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر بنی اسرائیل نے غلطی کی تو ان کے نبی کے فعل کو تو کوئی غلط نہیں کہہ سکتا اگر بنی اسرائیل نے غلطی کی تھی کہ نبی کے ہوتے ہوئے غیر نبی