ملفوظات حکیم الامت جلد 9 - یونیکوڈ |
|
ہیں مگر ہیں مفلس تو گو حقیقت میں فی نفسہ یہ افلاس عقل کا اثر نہیں مگر ایک عارض کی وجہ سے ایک صورت ایسی بھی ہو سکتی ہے کہ اس صورت میں خود عقل سبب بن جائے نحوست اور افلاس کا وہ صورت یہ ہے کہ ممکن ہے ان عقلاء کے اندر ایک صورت دعوی کی پیدا ہو گئی ہو کہ وہ اپنے کو عقلمند دیکھ کر دوسروں کو حقیر سمجھنے لگے ہوں ـ لہٰذا اس تکبر کی ان کو یہ سزا دی گئی ہو کہ ان کو مفلس کر دیا گیا اب رہی یہ بات کہ پھر اس مرض تکبر اور دعوی کا علاج کیا ہے اور وہ کیا تدبیر ہے کہ کمال کے حصول کے بعد بھی دعوی نہ پیدا ہو تو اس کا طریقہ سوائے اس کے کچھ نہیں کہ بزرگوں کی یعنی ( اولیاء اللہ کی 12 ) جوتیاں سیدھی کی جائیں اور ان کی صحبت میں رہا جائے تو پھر یہ حالت ہو جاتی ہے کہ کمال تو بڑھتا جاتا ہے مگر دعوی گھٹتا جاتا ہے ـ اور بزرگوں کی صحبت میں رہنے سے دعوی کے فنا ہو جانے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی صحبت کی برکت سے اس شخص نظر کمال کی حقیقت تک یعنی کمال کے انتہائی درجہ پر پہنچ جاتی ہے تو چونکہ اس کی نظر حقیقت پر ہوتی ہے اس لئے بجائے اس کے کہ وہ دوسروں سے اپنی حالت کا موازنہ کرے ـ اصل حقیقت سے اپنی حالت کا موازنہ کرتا ہے تو وہ دیکھتا ہے کہ حقیقت کے مقابلہ میں میری حالت بالکل ہی ہیچ ہے لہٰذا وہ اپنے آپ کو بجائے اس کے کہ کامل سمجھے ناقص اور ہیچ در ہیچ سمجھنے لگتا ہے مثلا ایسے شخص کی نظر عقل کی حقیقت پر ہوتی ہے تو وہ جب اس حقیقت س اپنی عقل کا موازنہ کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ عقل کی جو حقیقت ہے اس مقابلہ میں میری عقل کچھ بھی نہیں اس لئے بجائے اس کے وہ اپنی عقل کا مدعی ہو اپنی عقل کو ہیچ سمجھتا ہے اسی طرح اس شخص کی نظر علم کی حقیقت پر ہوتی ہے ـ تو علم کی جو حقیقت ہے اس جب وہ اپنے علم کا مدعی ہو اپنے علم کو کالعدم سمجھنے لگتا ہے اور گو حقیقت میں اس کو علم و فضل کا اعلی درجہ حاصل ہوتا ہے اور دوسروے لوگ اس کے فضل و کمال کے معتقد بھی ہوتے ہیں مگر اس شخص کی یہ حالت ہوتی ہے کہ یہ شخص اپنے آپ کو ہیچ در ہیچ سمجھتا ہے ـ چناچہ حضرت مولانا محمود الحق رحمتہ اللہ علیہ ظاہر ہے کہ کتنے بڑے شخص شخص علماء فضلاء تک ان کے کمال کے معتقد ہیں مگر باوجود اس کے وہ اپنے متعلق یوں فرمایا کرتے تھے کہ ساری عمر کے پڑھنے پڑھانے سے علم تو حاصل نہیں ہوا مگر یہ فائدہ ضرور ہوا کہ اپنے جہل یعنی لا علمی کا علم ہو